عنوان: | دو ہاشمی شہزادے |
---|---|
تحریر: | مفتیہ اُم ہانی امجدی |
پیش کش: | مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد |
چمن زہرا کے دو کمہلائے ہوئے پھول آپس میں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے ڈرے سہمے بھائ آخر ہم گھر کیسے پہونچیں گے بڑا بھائ چھوٹے سے فکر نہ کرو شہزادے! اللہ رب العزت کوئی نہ کوئی انتظام فرما ہی دے گا اور پھر یہ دونوں شہزادے ایک رئیس مالدار شخص کے دروازے پر جا پہونچتے ہیں چہرہ غبار سے اٹا ہوا حالات اور زمانے کی سختیاں جھیلتے ہوۓ گویا ننھے پھولوں کو توڑ لیا گیا ہو سخت دوپہر کی دھوپ مسلسل کئ دنوں سے چلتےچلتے طبیعت نڈھال سی ہوگئ تھی۔
تبھی وہ رئیس اپنا دروازہ کھول باہر نکلا اور دونوں شہزادوں سے کرخت آواز میں پوچھا کہ تم کون اور کہاں سے آئے ہو شہزادوں نے انتہائی دبی سہمی آواز میں کہا ہم آل رسول ہیں اور قافلے سے بچھڑ کر غریب الوطن بھی ہوگۓ ہیں بھوک اور غموں سے چور، مگر غیرت ہے کہ کسی کی آگے دست سوال دراز نہیں کرنے دیتی اگر تم آج ہماری مدد کرو گے تو اس دنیا میں تو نہیں مگر قیامت والے دن ضرور نانا جان سے کہہ کر تمہاری شفاعت کروا دیں گے۔
رئیس بولا تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ تم سید زادے ہو یہ اور پھر جھڑک کر بھگا دیا مایوس ہوکر دونوں شہزادے وہاں سے اٹھ چلے اور دوپہر دھوپ میں چلتے چلتے تھک گۓ تو ایک دیوار کے سائے میں آرام کی غرض سے بیٹھ گۓ اور پھر چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی سے کہا برادرمن! اب تو پاؤں میں چلنے کی سکت بھی باقی نہیں رہی بھوک سے الگ طبیعت نڈھال ہے کہیں یہ شخص بھی تو نہیں اٹھا دے گا نہ تو پھر ہم کیا کریں گے بڑے بھائی نے کہا جان عزیز فکر نہ کرو ابھی تمہارا بڑا بھائی زندہ ہے کوئ جگہ نہیں دے گا تو میں تمہیں اپنی پیٹھ پر اٹھا لوں گا اور زمانے کی آنچ تک تم پر نہیں آنے دوں گا ابھی یہ دونوں شہزادے انہیں باتوں میں مصروف ہی تھے کہ تبھی مالک مکان جو کہ مجوسی تھا انتہائی غصے کے عالم میں مکان سے باہر نکلا کیونکہ اس کے آرام میں خلل پڑ رہا تھا۔
مگر جیسے ہی نظر ان دو ہاشمی پھولوں پر پڑتی ہے ایک دم سے سارا غصہ سرد پڑ گیا اور انتہائی شفقتوں کے ساتھ اپنی آغوش میں لیتے ہوۓ کہتا ہے ننھے شہزادوں تم اس تپتی ہوئی دھوپ میں یہاں کیا کر رہے ہو شہزادوں نے ڈرتے ڈرتے اپنا ماجرا بیان کیا کہ کس طرح ہم بے سرونسامانی کے عالم میں قافلے سے بچھڑ گئے ہیں اور سامنے والے رئیس کا واقعہ بھی بتایا کہ وہ ہم سے ہمارے سید زادے ہونے کا ثبوت مانگتا ہے مجوسی نے کہا وہ تو خود مسلمان ہے اور تمہارے نبی کا کلمہ پڑھتا ہے اسکو تمہارے نورانی چہروں کے علاوہ اور کیا ثبوت چاہۓ خیر تم دونوں میرے ساتھ چلو اور انکو اپنے مکان میں لے گیا نہلایا دھلایا عمدہ کپڑے زیب تن کرواۓ خود رئیس کی بیوی سو جان سے واری جارہی تھی۔
غرض کہ مہمان نوازی کا شرف اٹھانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی تھی دن بھر انتہائی شفقتوں اور محبتوں کو لٹاتے ہوئے ناز برداری میں گزررا سو سو جان سے واری جارہا تھا آخر کار رات ہوئی اور پچھلا پہر آیا ہی تھا کہ اچانک محلے کے سامنے والے رئیس کے گھر سے کچھ آوازیں سنائی دیں اور ایک ہلچل سی سنائی دینے لگی خدا خدا کرکے کسی طرح صبح ہوئی ہی تھی کہ دروازے پر کسی نے دستک دی اور جب دروازہ کھولا تو کیا دیکھا کہ وہی مسلمان پڑوسی رئیس تھا جس کے بارے میں کل دونوں شہزادوں نے تذکرہ کیا تھا آتے ہی قدموں میں گر گیا اور کہنے لگا خدارا مجھے معاف کر دو مجھ سے بہت بڑی بھول ہوگئ ہے دونوں شہزادے کہاں ہیں انکو میرے پاس بلادو کہ وہ مجھے معاف کر دیں ورنہ میں برباد ہوجاؤں گا۔
مجوسی بولا آخر بات تو بتاؤ ایسا کیا ہوگیا ہے رئیس نے اپنا ماجرا بیان کرنا شروع کردیا اور بولا رات جب میں سویا میں نے بہت ہی عجیب و غریب خواب دیکھا کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شاندار سا محل ہے جسے لوگ جنت کہتے ہیں کثرت سے لوگ جوق در جوق اس میں داخل ہورہے ہیں تم کو بھی میں نے ان کے ساتھ داخل ہوتے ہوے دیکھا میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا کہ اچانک سے کسی نے مجھے روک دیا اور کہا تم کہاں؟ میں بولا میں بھی انہیں کی طرح جنت میں، وہ بولا: جنت صرف وہی جاسکتے ہیں جن کے پاس اس میں داخل ہونے کی سند ہو، تمہارے پاس کیا سند ہے یہ سن کر میں ہکا بکا رہ گیا تبھی اس نے کہا کل تم جس طرح سید زادوں سے انکے سید ہونے کا ثبوت مانگ رہے تھے ویسے ہی ہم بھی تمہیں بنا ثبوت جنت میں داخل ہونے نہیں دیں گے۔
جب آنکھ کھلی تو میں حیران وپریشان ہوگیا اور اپنے کۓ پر انتہائی پشیمان ہوں اور حیران ہوں کہ آخر تمہیں کس عمل کے بدلے جنت میں داخل ہونے کی اجازت مل گئی اور مجھے روک دیا گیا۔ مجوسی بولا کیوں کہ میں نے ان شہزادوں سے کوئی ثبوت نہیں مانگا اور انکی محبت و چاہت نے مجھے جنت کا حق دار بنا دیا۔ سبحان اللہ! (ملخصا از لالہ زار)
اللہ ربّ العزت ہم سبھی کو سادات کرام سے محبت و عقیدت رکھنے والا بناۓ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم