عنوان: | لوگ احسان بھول جاتے ہیں! |
---|---|
تحریر: | عالیہ فاطمہ انیسی |
پیش کش: | مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد |
زندگی میں ہم جب پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہیں تو کئی چہرے ذہن میں اُبھرنے لگتے ہیں وہ چہرے، جنہوں نے کبھی ہمارے لیے آنکھوں کے خواب قربان کیے، اپنے آرام تج دیے، ہماری کامیابی کے لیے دعاؤں کے دیپ جلائے، اور ہمیں بنانے کے لیے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ نچھاور کر دیا۔ مگر آج وہی چہرے ہمیں اجنبی لگتے ہیں، یا شاید ہم خود اُن کے لیے اجنبی بن چکے ہیں۔
انسان کی فطرت ہے، وہ وقت کے ساتھ آگے بڑھتا ہے، لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ پیچھے چھوڑ آئے ہوئے چہروں، احسانات، اور قربانیوں کو بھلا دیتا ہے۔ کبھی والدین کی بےلوث محبت، کبھی استاد کی تربیت، کبھی کسی عزیز کی مدد، کبھی دوست کی دلاسہ بھری باتیں۔
جب ضرورت تھی، تو ہم نے ان کے دروازے کھٹکھٹائے، ان کا ساتھ، ان کی رہنمائی، ان کی دعائیں ہماری زندگی کا سہارا بنیں۔ مگر جب ہم چلنا سیکھ گئے، تو وہ ہاتھ جو ہمیں اٹھایا کرتے تھے، اب ہمیں بوجھ لگنے لگے۔ وہ باتیں جو ہمیں سنبھالتی تھیں، اب ہمیں تنقید لگنے لگیں۔
کیا یہ انسانیت ہے؟ کیا یہی صلہ ہے احسان کا؟ کیا اسلام یہی درس دیتا ہے؟
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (الرحمن: 60)
ترجمہ کنزالایمان: نیکی کا بدلہ کیا ہے مگر نیکی
لیکن آج حال ہے کہ لوگ نیکی کا بدلہ الزام سے دیتے ہیں۔ احسان جتانے والے نہیں، بھلا دینے والے بن چکے ہیں۔ جس ماں نے راتوں کو جاگ کر پال پوس کر بڑا کیا، اُس کی خدمت آج بوجھ بن گئی۔ جس استاد نے لکھنا سکھایا، سوچنا سکھایا، اس کی نصیحتیں اب مداخلت لگنے لگی ہیں۔
کبھی کبھی لگتا ہے کہ وقت بدل گیا ہے، مگر دراصل ہم بدل گئے ہیں ہم احسان فراموش بن چکے ہیں، ہم خود غرض ہو گئے، ہم رشتوں کو مطلب کے لیے استعمال کرنے لگے، ہم نے اپنی تہذیب، اپنا وقار، اپنی تاریخ اپنی تعلیمات کو بھلا دیا۔
حدیث میں آتا ہے:
لَا يَشْكُرُ اللَّهَ مَنْ لَا يَشْكُرُ النَّاسَ (ابو داؤد: 4811)
ترجمہ: جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا، وہ اللہ کا (بھی) شکر ادا نہیں کرتا۔
ہمارا اسلام تو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم لوگوں کے احسانات کو بھلا دیں، یا ان کی نیکی کا صلہ ان کی دل آزاری کی صورت میں دیں، بلکہ اسلام کو ہمیں شکر گزار بننے کی تعلیم دیتا ہے۔
بظاہر یہ ایک چھوٹا عمل لگتا ہو لیکن اس کا اثر معاشرے پر کس طرح پڑ رہا ہے، ہم کبھی غور نہیں کرتے۔ جب لوگ نیکی کا بدلہ برائی سے دینے لگتے ہیں، تو وہ دل جو کبھی دوسروں کے لیے دھڑکتے تھے، وہ ہاتھ جو مدد کے لیے اٹھتے تھے، اور وہ لوگ جو کسی کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کو بے تاب رہتے تھے رفتہ رفتہ وہ اس نیکی سے دور ہونے لگے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں کل یہی نیکی ہمارے لیے ذلت کا، دل آزاری کا سبب نہ بن جائے۔
بیشک اللہ پاک نیکیوں کی جزا عطا کرنے والا ہے، اور امید بھی اس کی ذات سے رکھنی چاہیے۔ لیکن یہ آپسی محبّت اور اتفاق کی علامت ہے کہ ہم ایک دوسرے کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو یاد رکھتے ہوئے اس کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کریں، اور ایک دوسرے کا شکر ادا کرتے رہیں۔
اگر ہم کسی کا حق ادا نہیں کر سکتے، تو کم از کم اُس کے ساتھ احسان فراموشی کا سلوک نہ کریں، اگر ہم شکریہ ادا نہیں کر سکتے، تو کم از کم اُس شخص کو تکلیف نہ دیں جس نے کبھی ہمارے لیے آسانی پیدا کی تھی۔
فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَ لَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ (البقرہ: 237)
ترجمہ کنزالایمان: اور آپس میں ایک دوسرے پر احسان کو بُھلا نہ دو۔
یہ آیت ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ تعلقات کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ ہم احسان کو یاد رکھیں، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ کیونکہ اگر ہم ایسا نہ کریں، تو وہ دن دور نہیں جب لوگ واقعی نیکی کرنا چھوڑ دیں گے، اور پھر سارا معاشرہ خود غرضی، بے حسی، اور ناشکری کا شکار ہو جائے گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں شکر گزاروں کی فہرست میں شامل فرمائے۔ آمین