عنوان: | حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حوصلہ |
---|---|
تحریر: | زینب فاطمہ انیسی |
پیش کش: | مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد |
حضرت سیّدتنا بی بی زینب بنت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نور والے آقا، صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم کی نواسی، مولا علی و حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی شہزادی اور جنّتی نوجوانوں کے سردار حسنینِ کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی سگی بہن ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کی حیاتِ ظاہری میں پیدا ہوئیں، بڑی عقل مند، دانا اور فراخ دِل تھیں۔
زینبِ کبریٰ آپ ہی کو کہا جاتا ہے۔ میدانِ کربلا میں آپ اپنے دو شہزادوں حضرت عون اور حضرت محمد رضی اللہ عنہما کے ساتھ تشریف لائیں، دونوں شہزادوں نے دورانِ جنگ بہادری کے خوب جوہر دِکھائے، بالآخر ظالم یزیدیوں کو تہِ تیغ کرتے ہوئےشہادت کاجام نوش کرگئے۔
حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک بہادر اور حوصلہ مند خاتون تھیں، جنہوں نے واقعہ کربلا میں اپنے بھائی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور دیگر اہل بیت کے ساتھ جو مصائب اور تکالیف آئیں، ان کا نہایت صبر و تحمل اور استقامت سے مقابلہ کیا۔ ان کا کردار، جرات اور خطابت نے واقعہ کربلا کو ایک نئی جہت دی اور ان کی بہادری تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
کربلا کے سانچے میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کردار کو نمایاں طور پر بیان کیا گیا ہے۔ وہ اپنے بھائی امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھیں اور ان کی شہادت کے بعد انہوں نے قافلے کی قیادت کی۔ انہوں نے یزید کے دربار میں بے باکی سے تقریر کی اور حق بات کہنے میں کسی خوف کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان کی تقریر نے لوگوں کے دلوں میں تبدیلی پیدا کی اور واقعہ کربلا کے پیغام کو عام کیا۔
حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی استقامت اور صبر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں اور بھائیوں کی شہادت کے بعد بھی ہمت نہیں ہاری اور اسلام کی سربلندی کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔ انہوں نے یزید کے دربار میں جس جرأت اور بے باکی سے تقریر کی، وہ تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ ان کی تقریر نے لوگوں کو واقعہ کربلا کی حقیقت سے آگاہ کیا اور یزیدی مظالم کو بے نقاب کیا۔
حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی زندگی صبر، استقامت، اور جرات کی ایک روشن مثال ہے۔ انہوں نے واقعہ کربلا میں جو کردار ادا کیا، وہ ہمیشہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ ان کی بہادری اور خطابت نے اسلام کی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل کیا ہے۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ مصائب اور تکالیف کے سامنے ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور ہمیشہ حق کی حمایت کرنی چاہیے۔
صبر و استقامت سے کام لیتے ہوئے رضائے الہٰی پر راضی رہنا انتہائی اعلیٰ صفات ہیں، صبر کرنے سے اللہ پاک کی خاص مدد و نصرت حاصل ہوتی ہے، حضرت سیّدتنا بی بی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کربلا کے قیامت نُما سانحہ میں اپنے بیٹے، بھتیجے حتٰی کہ جان سے عزیز بھائی امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم شہید ہوتے دیکھے لیکن اس کے باوجود ایک لمحے کے لئے بھی بے صبری کا مظاہرہ نہیں کیا اور آپ کے پائے استقامت میں ذرّہ برابر بھی لرزش نہیں آئی، گویا آپ صبر کا پہاڑ تھیں جنہیں درد و غم کا کوئی بھی طوفان ان کی جگہ سے ہٹا نہیں پایا۔
گھر لُٹانا جان دینا کوئی تجھ سے سیکھ جائے
جانِ عالم ہو فدا اے خاندانِ اہلبیت
امامِ عالی مقام امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے دو روز بعد اسیرانِ کربلا کو کوفہ لے جایا گیا۔ کوفہ سے واپسی پر جب ان کا گزر میدانِ کربلا سے ہوا تو وہاں شہداء کے خون سے لَت پَت مبارک جسم دیکھ کر عزّت مآب خواتینِ اہلِ بیت کے دل بیتاب ہو گئے، دل کا درد ضبط نہ ہو سکا، حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہا نے اس موقع پر بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم! آپ پر آسمان کے فرشتوں کا درود ہو، دیکھئے! یہ حسین میدان میں لیٹے ہوئے ہیں، خون میں لَت پَت ہیں، ان کے اعضا ٹکڑے ٹکڑے ہیں، آپ کی بیٹیاں قید میں ہیں، آپ کی اولاد شہید کر دی گئی ہے اور ہوا ان پر خاک اُڑا رہی ہے۔
اہلِ بیتِ اَطہار کی محبت کا دم بھرنے والو! مشکل گھڑی آن پڑے تو ان پاکیزہ نفوس کی پیروی میں آپ بھی بارگاہِ رسالت میں استغاثہ پیش کیا کیجئے، شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں اور اللہ پاک چاہے تو اس کی برکت سے مشکلات بھی حل ہو جاتی ہیں۔
واللہ وہ سُن لیں گے فریاد کو پہنچیں گے
اتنا بھی تو ہو کوئی جو آہ کرے دِل سے