✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
قارئین سے گزارش ہے کہ کسی بھی مضمون میں کسی بھی طرح کی شرعی غلطی پائیں تو واٹسپ آئیکن پر کلک کرکے ہمیں اطلاع کریں، جلد ہی اس کی اصلاح کردی جائے گی۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا 🥰

ہم کیسی نسل تیار کر رہے ہیں؟

عنوان: ہم کیسی نسل تیار کر رہے ہیں؟
تحریر: بنتِ عبد الرحیم صدیقی
پیش کش: مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد

جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری زندگی نظم و ضبط پر قائم ہے۔ اور اس اصول کو برقرار رکھنے کے لیے رب تعالیٰ نے ہر ایک کے حقوق مقرر فرما دیے ہیں، تاکہ بندہ حقوق اللّٰہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بھی ادائیگی کرکے مطمئن و پرسکون دنیاوی زندگی گزار سکے۔

چنانچہ جس طرح ہر فرد کا حق دوسرے فرد پر ہے، اسی طرح ایک شخص دوسرے شخص کا ذمہ دار بھی ہے۔ مثلاً والدین کے حقوق، اساتذہ کے حقوق، اولاد کے حقوق، زوجین کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، اعزا و اقارب کے حقوق، غرباء و مساکین کے حقوق وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح اگر ہر انسان دوسرے کو اس کا حق دے تو بلاشبہ زندگی خوشگوار گزرے گی۔

مگر افسوس کہ آج اکثر لوگ ان حقوق سے کافی دور نظر آ رہے ہیں۔ اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو دوسرے کے حق کا تو خیال نہیں رکھتے، مگر اپنا حق لینے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے بھی نہیں دیتے۔ انہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ان والدین کی بھی ہے جو اولاد سے اپنے پورے پورے حق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن! جب اولاد کا حق ادا کرنا ہوتا ہے تو وہ بے خبر رہتے ہیں۔

انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہم پر ہماری اولاد کا کیا حق ہے۔ وہ اس خیال کے شکار ہو جاتے ہیں کہ اولاد کو خوش رکھنا ہی ہماری ذمہ داری ہے، خواہ خوش رکھنے کے لیے حرام طریقہ ہی کیوں نہ اپنانا پڑے، یا اولاد غلط روی کا شکار ہی کیوں نہ ہو جائے، مگر خوش رہے۔ حالانکہ یہ خیال سراسر باطل ہے۔ بلکہ والدین پر حقیقی حق تو یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو جہنم کی آگ سے بچائیں۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (سورة التحريم : 6)

ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سخت کرّے فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کا حکم نہیں ٹالتے اور جو انھیں حکم ہو وہی کرتے ہیں۔

مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں گھر والوں سے مراد بیوی اور بچے ہیں۔ اسی طرح حدیث مبارکہ میں بھی ہے:

کریم آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا:

كُلُّكُمْ رَاعٍ وَ كُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالأَمِيرُ رَاعٍ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ زَوْجِهَا وَ وُلْدِهِ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَ كُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ۔ (البُخاری: 2558)

ترجمہ: تم میں سے ہر ایک محافظ ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحت لوگوں کے بارے میں سوال ہوگا۔ امیر محافظ ہے، مرد اپنے گھر والوں پر محافظ ہے، عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر محافظ ہے، تم میں سے ہر ایک محافظ ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحت لوگوں کے بارے میں سوال ہوگا۔

پتہ چلا کہ جس طرح انسان پر یہ لازم ہے کہ وہ خود کو جہنم کی آگ سے بچائے، یعنی ایسے افعال کا ارتکاب نہ کرے جو جہنم میں لے جانے کا سبب ہو، اسی طرح اس پر یہ بھی لازم ہے کہ اپنے اہل و عیال کو بھی ایسے افعال سے باز رکھے۔ نیز والدین سے ان کی اولاد کے متعلق بھی سوال ہوگا۔

لیکن! سوال یہ ہوتا ہے کہ اولاد کو کیسے بچایا جائے جہنم کی آگ سے؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ وہ اعمال جو جہنم میں لے جانے کے اسباب ہیں، ان سے اولاد کو روکا جائے۔ مگر صد افسوس! آج اکثر لوگ خیال باطلہ کے جال میں پھنس کر اولاد کے حقوق ادا نہیں کر رہے ہیں۔

آپ خود ہی سوچیں موجودہ دور کی نسلیں کس طرف جا رہی ہیں؟ بچپن سے ہی مائیں کام کے چکر میں فون پکڑا دیتی ہیں۔ بچہ کارٹون اور شارٹ ویڈیو جیسی بری لت کا عادی ہو جاتا ہے۔ والدین اسے اسکول میں اعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، مگر! قرآن سمجھنا تو دور، صحیح مخارج کے ساتھ پڑھانے کا بھی خیال نہیں کرتے۔ ان بچوں کو دنیاوی (جہنمی) ہیرو کی پوری بائیوگرافی تو معلوم ہے، لیکن! جس نبی محتشم ﷺ کا کلمہ پڑھا، ان کی سیرت سے بالکل انجان ہیں۔

جو سینے عشقِ مصطفیٰ سے لبریز ہونے چاہیے، آج وہ غیر محرم یا غیر مسلم کی محبت کے شکار ہیں۔ جن کے کردار سے غیروں کو متاثر ہونا تھا، آج وہ غیروں کی روش کو اختیار کیے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ انہیں گانیں اور فلمیں تو یاد ہیں، پر افسوس! اسلاف کی تاریخ کی خبر ہی نہیں۔ بچیاں ہر میک اپ کی کمپنی اور اس کی خصوصیات تو جانتی ہیں، اگر کچھ نہیں معلوم تو وہ ہے ردائے زہرا، وہ ہے سیرت زہرا۔

اب بتائیں ذرا جب اس وقت یہ حال ہے تو آنے والے دور کا عالم کیا ہوگا؟ نیز ان سب کے ذمہ دار کون ہوں گے؟ کیا وہ والدین بچ جائیں گے جنہوں نے اپنی اولاد کو راہِ دوزخ کے بارے میں بے خبر رکھا؟ انہیں دنیاوی تعلیم کے چکر میں دینی تعلیم سے بالکل بے خبر رکھا؟

آخر کیوں والدین اپنی ذمہ داری میں کوتاہی کر رہے ہیں؟ کیوں نسلوں کی تربیت کا خیال نہیں رکھ رہے ہیں؟ کیوں ہر جائز، ناجائز کام میں اولاد کی خوشیوں کو مقدم کر رہے ہیں؟

یاد رکھیں! اگر اسی طرح کوتاہی برتی گئی تو کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور کے حالات کے ذمہ دار کہیں نہ کہیں وہ والدین بھی ہیں جنہوں نے اولاد کی خوشیوں کے سامنے حکمِ الٰہی کو پس پشت ڈال دیا۔

لہٰذا اے امت مسلمہ کے زندہ دل لوگوں! اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہمارے حالات بدل جائیں، اگر آپ کی خواہش ہے کہ دورِ فاروقی پھر سے پلٹ آئے، تو خدارا اپنی ذمہ داری بحسنِ خوبی انجام دیجیے۔ بچوں کی تربیت کا خیال کیجیے، انہیں صحیح، غلط، حلال اور حرام سے آگاہ کیجیے، انہیں اسلاف کی سیرت سے متنبہ کیجیے، انہیں اسلام کی خوبصورتی اور قرآن کی حقانیت سے باخبر کیجیے۔

یقین جانیں جس دن یہ نسل نو اپنی حقیقت سے آشنا ہو کر اسلاف کے طرزِ عمل کو اپنا لے گی، تو وہ دن دور نہیں جس کے متعلق ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا:

نکل کر صحرا سے جس نے
روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے
وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

مولیٰ کریم اپنے پیارے حبیب کے صدقے میں ہم سب کو صحیح معنوں میں اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا مجیب السائلین۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں