✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
قارئین سے گزارش ہے کہ کسی بھی مضمون میں کسی بھی طرح کی شرعی غلطی پائیں تو واٹسپ آئیکن پر کلک کرکے ہمیں اطلاع کریں، جلد ہی اس کی اصلاح کردی جائے گی۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا 🥰

ارے مولوی صاحب! یہ امیر معاویہ کون تھے؟

ارے مولوی صاحب! یہ امیر معاویہ کون تھے؟
عنوان: ارے مولوی صاحب! یہ امیر معاویہ کون تھے؟
تحریر: محمد ناظم عطاری
پیش کش: جامعۃ المدینہ فیضان مخدوم لاھوری، موڈاسا، گجرات

پروفیسر:
ارے مولوی صاحب! یہ معاویہ کون تھے، آپ کو معلوم ہے؟

طالب علم:
(لائبریری کی ٹیبل پر مطالعہ میں مصروف، پروفیسر صاحب کے سوال پر ادب سے کتاب بند کرتے ہوئے)
اولاً گزارش کہ میں مدرسے کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوں۔ ابھی میں مولوی صاحب یا عالم صاحب نہیں بنا، بلکہ اس راہ کا مسافر ہوں۔
اب آپ کے سوال کا جواب ملاحظہ ہو: جی! یہ جلیل القدر صحابی رسول، بہترین حاکم، اور کاتبِ وحی تھے۔

پروفیسر:
کاتبِ وحی؟ کہیں لکھا بھی ہے یا ویسے ہی آپ نے سن رکھا ہے؟

طالب علم:
جی! سیر اعلام النبلاء میں امام ذہبی نے، دلائل النبوۃ میں امام بیہقی نے، البدایہ والنہایہ میں ابن کثیر نے، الشریعہ میں امام ابو بکر الآجری نے، اور دیگر علماء و محدثین نے صراحتاً لکھا ہے:

وَكَانَ يَكْتُبُ الوَحْيَ [سیر اعلام النبلاء، ج: ۳، ص: ۱۲۳، مؤسسة الرسالة]

حضرت معاویہ وحی لکھا کرتے تھے۔
اور یہ منصب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود جسے دیں، اس سے بڑا مقام کیا ہوگا؟

پروفیسر:
تو پھر آپ کو تو پتا ہوگا کہ انہوں نے کون کون سی وحی لکھی؟

طالب علم:
پہلے آپ یہ بتائیں، کیا ان کے علاوہ بھی کاتبینِ وحی تھے؟

پروفیسر:
جی! ابی بن کعب، حضرت علی، زید بن ثابت، زبیر بن عوام، عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم، یہ سب کاتبِ وحی تھے۔

طالب علم:
تو بتائیں، انہوں نے کون کون سی آیات لکھیں؟

پروفیسر:
(سکتے کے عالم میں)
لیکن ان کے بارے میں تو کوئی خاص فضیلت احادیث میں آئی ہی نہیں۔

طالب علم:
یہ بتائیں، کتنے صحابہ کرام ہوئے ہیں؟

پروفیسر:
ایک لاکھ سے زیادہ۔

طالب علم:
کیا آپ سب کے فضائل احادیث سے ثابت کر سکتے ہیں؟

پروفیسر:
اس کی کیا ضرورت ہے؟ ان سب کا صحابی ہونا ہی سب سے بڑی فضیلت ہے۔

طالب علم:
جی، تو کیا پھر آپ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو صحابی نہیں مانتے؟

پروفیسر:
(اپنی زبان کو دانتوں پر پھیرتے ہوئے)

طالب علم:
مزید یہ کہ پھر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تو وہ صحابی ہیں جن کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی فضائل اور خصوصی دعائیں فرمائی ہیں۔

پروفیسر:
خصوصی دعائیں؟ وہ کیسے؟

طالب علم:
سنیے:

  1. ایک حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    اللہم علم معاویہ الکتاب والحساب [مسند احمد بن حنبل، ج: ۲۸، ص: ۳۸۲، مؤسسة الرسالة]

    اے اللہ! تو معاویہ کو کتاب و حساب کا علم عطا فرما۔

  2. ایک مرتبہ فرمایا:

    اللہم اجعله ہادیا مہدیا واہد بہ [سنن الترمذی، ج: ۵، ص: ۶۸۷، مصطفیٰ بابی الحلبی]

    اے اللہ! تو معاویہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت یافتہ بنا۔

  3. بخاری شریف میں حضرت ابن عباس سے پوچھا گیا کہ امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ انہوں نے ایک ہی رکعت پڑھی، آپ نے فرمایا:

    إنه فقيه [صحیح بخاری، ج: ۳، ص: ۱۳۷۳، دار ابن کثیر]

    ارے وہ تو فقیہ ہیں۔

  4. ایک روایت میں ہے:

    دعه فإنه صحب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم [صحیح بخاری، ج: ۳، ص: ۱۳۷۳، دار ابن کثیر]

    انہیں چھوڑو، وہ رسول اللہ کے صحابی ہیں۔

بتائیں! بخاری شریف میں بھی انہیں امیر المومنین، صحابیِ رسول، فقیہ بتایا گیا ہے۔ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے نکلنے والی دعا کے خلاف کسی کا کلام قابل قبول ہے؟

پروفیسر (بوکھلاہٹ کے ساتھ):
لیکن یہ چودہ سو سال گزرنے کے بعد آپ ان کا تذکرہ کیوں کرتے ہیں؟ چودہ سو سال میں کسی نے ان کا تذکرہ نہیں کیا؟

طالب علم:
کیا آپ نے چودہ سو سالہ تمام علما و محدثین کی کتابوں کا مطالعہ کر رکھا ہے؟

پروفیسر (حواس باختہ):
نہیں، وہ تو میں نے سنا ہے۔

طالب علم:
آپ نے غلط سنا ہے جناب! ان چودہ سو سالوں میں کئی بڑے بڑے علماء و جلیل القدر محدثین نے اپنی کتابوں میں ان کا تذکرہ کیا ہے:

  1. امام ابن حجر ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دفاع میں پوری کتاب لکھی:

    تطھیر الجنان واللسان عن الخطور والتفوہ بثلب سيدنا معاوية بن أبي سفيان

  2. امام ابو عمرو ثعلب رحمۃ اللہ علیہ نے مستقل کتاب لکھی۔ ان کے پاس کوئی پڑھنے آتا، تو جب تک یہ کتاب نہیں پڑھ لیتا، اسے حدیث نہیں سناتے۔
  3. امام قاسم عبید اللہ سقطی نے مستقل کتاب لکھی:

    فضائل أمير المؤمنين معاوية

  4. امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں باب باندھا:

    باب ذکر معاوية رضي الله عنه

  5. امام ترمذی نے اپنی کتاب سنن ترمذی میں ایک باب قائم کیا:

    باب مناقب معاوية بن أبي سفيان

  6. امام ابو یعلیٰ الفراء رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دفاع میں پوری مستقل کتاب لکھی:

    تنزيه خال المؤمنين معاوية بن أبي سفيان

  7. امام ابن حبان نے اپنی صحیح میں باب باندھا:

    ذکر معاوية بن أبي سفيان

  8. امام احمد بن حنبل نے اپنی کتاب فضائل الصحابہ میں عنوان قائم کیا:

    فضائل معاوية بن أبي سفيان

  9. امام ابن ابی الدنیا نے مستقل کتاب لکھی:

    حلم معاوية

  10. امام عبد العزیز ملتانی نے مستقل کتاب لکھی:

    الناهية عن طعن أمير المؤمنين معاوية

اور پتا نہیں کتنے بڑے جلیل القدر علماء و محدثین نے ان کا تذکرہ کیا۔

پروفیسر (شرمسار لہجے میں):
مگر حضور! کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ وہ حضرت علی کو گالیاں نکلواتے تھے؟

طالب علم:
ایسا کہنا بدترین جہالت ہے! آپ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خوب تعریف کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ سے پوچھا گیا: آپ افضل ہیں یا حضرت علی؟ فرمایا: حضرت علی کے چند نقوش بھی آلِ ابو سفیان سے بہتر ہیں۔ پھر فرمایا: جو شخص حضرت سیدنا علی کی تعریف میں شعر سنائے، اسے ہر شعر کے بدلے ہزار درہم دوں گا۔ [الناهية، فصل في فضائل معاوية رضي الله عنه، ص: ۵۹، الكويت]

پروفیسر (کسی چور کی طرح نظریں جھکائے):
مگر مفتی صاحب! ان کے دور میں تو جنگ ہوئی، خون بہا، کیا یہ سب درست تھا؟

طالب علم:
یہ سب اجتہادی اختلاف تھا، جس میں دونوں فریق مجتہد تھے۔ اور مجتہد کے اجتہاد میں اگر غلطی ہو جائے، اس پر کوئی گناہ نہیں، بلکہ حدیث پاک کے مطابق اسے ایک اجر ملتا ہے، اور جس کا اجتہاد صحیح ہو، اسے دگنا اجر ملتا ہے。 [صحیح بخاری]

پروفیسر (بے بسی سے تھوک نگلتے ہوئے):
تو کیا ہمارے کسی بڑے نے بھی اسے مانا ہے؟

طالب علم:
جی، خود اہلِ بیت میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے امام حسن نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور امت کے امن کو برقرار رکھا۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی فرمایا تھا:

إن ابني هذا سيد، ولعل الله أن يصلح به بين فئتين عظيمتين من المسلمين [صحیح بخاری، ج: ۲، ص: ۹۶۲، دار ابن کثیر]

میرا یہ بیٹا سردار ہے، یقیناً اللہ اس کے ذریعے دو بڑے مسلمان گروہوں میں صلح کروائے گا۔

پروفیسر (کپکپاتی آواز میں):
لیکن حضور! پھر بھی تاریخ میں تو انہیں ایسا ایسا کہا گیا ہے۔

طالب علم:
اچھا، چلو ایک بہترین انداز میں آپ کو سمجھاتا ہوں۔ یہ بتائیں کہ اگر کوئی شخص وضو کرے اور وضو سے پہلے بسم اللہ شریف نہ پڑھے، تو کیا اس کا وضو ہوگا یا نہیں؟

پروفیسر (تعجب میں):
اس کا اس بحث سے کیا تعلق؟

طالب علم:
بتاتا ہوں، پہلے میرا جواب دیں۔

پروفیسر (آنکھیں جھکائے):
ہو جائے گا، کیونکہ وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنا سنت ہے، فرض نہیں۔

طالب علم:
کیوں ہو جائے گا؟ حالانکہ صحیح حدیث موجود ہے:

لا وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ يَذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ [سنن ابی داود، حدیث: ۱۰۱]

جس نے وضو سے پہلے بسم اللہ نہ پڑھی، اس کا وضو ہی نہیں ہوتا۔

پروفیسر (ڈرتے ڈرتے):
کیونکہ ظاہر سی بات ہے، کتاب اللہ میں وضو سے متعلق آیت مطلق ہے:

يٰۤأَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ [سورۃ المائدہ، آیت: ۶]

اے ایمان والو! جب نماز کو کھڑے ہونا چاہو تو اپنے منہ دھوؤ اور کہنیوں تک ہاتھ، سروں کا مسح کرو، اور گٹوں تک پاؤں دھوؤ۔
اور ہم اصولِ فقہ میں پڑھ چکے ہیں کہ کتاب اللہ کے مطلق کو اس کے اطلاق پر باقی رکھا جائے گا۔ اگر اس کے مقابل میں خبرِ واحد آ جائے، تو تطبیق ممکن ہو تو دی جائے گی، ورنہ کتاب اللہ پر عمل کیا جائے گا اور خبرِ واحد کو چھوڑ دیا جائے گا۔

طالب علم:
صحیح۔ ایک اور سوال کا جواب دیں۔ اگر کوئی شخص نماز میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھے، بلکہ کوئی اور سورت پڑھ لے، تو کیا اس کی نماز ہو جائے گی؟

پروفیسر (دم بخود ہو کر):
نماز ہو جائے گی، البتہ ترکِ واجب کی وجہ سے مکروہ ہوگی۔

طالب علم:
کیسے نماز ہو جائے گی؟ حالانکہ صحیح سند سے حدیث موجود ہے:

لا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ [صحیح بخاری، حدیث: ۷۵۶]

جس نے سورۂ فاتحہ نہ پڑھی، اس کی نماز ہی نہیں ہوتی۔

پروفیسر (گھبراتے ہوئے):
وہی اصولِ فقہ کا قاعدہ۔

طالب علم:
ٹھیک ہے، اب سنیں: اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں صحابہ کرام سے متعلق ارشاد فرماتا ہے:

لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ [سورۃ الحدید، آیت: ۱۰]

تم میں برابر نہیں وہ جو فتح مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کر چکے، وہ مرتبہ میں ان سے بڑے ہیں جو بعد فتح کے خرچ اور جہاد کر چکے، اور اللہ نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرما لیا ہے۔

اللہ تعالیٰ جن کے لیے "حسنٰی" (بھلائی) کا وعدہ فرمائے، ان کی شان قرآن خود بیان کرتا ہے:

إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَىٰ أُولَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ ۝ لَا يَسْمَعُونَ حَسِيسَهَا ۖ وَهُمْ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ خَالِدُونَ [سورۃ الأنبیاء، آیات: ۱۰۱-۱۰۲]

بیشک وہ جن کے لیے ہمارا وعدہ بھلائی کا ہوچکا، وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں۔ وہ اس کی بھنک نہ سنیں گے اور وہ اپنی من مانتی خواہشوں میں ہمیشہ رہیں گے۔

اب آپ غور کریں! جب ہم صحیح حدیث کے مقابل بھی قرآن کو نہیں چھوڑتے، تو بھلا یہ چناؤ مناؤ تاریخی واقعات کے مقابل قرآن کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟

پروفیسر (آنکھوں میں آنسو):
جی حضور! آپ کا بہت بہت شکریہ، میں نے تو کبھی صحیح سے یہ پہلو سنے ہی نہیں تھے۔

طالب علم (شفقت سے):
تحقیق کیا کریں، عقیدہ قرآن و حدیث سے بنائیں، سنی سنائی باتوں پر اعتماد نہ کیا کریں۔

پروفیسر (روتے روتے):
جی مفتی صاحب! توبہ کرا دیجیے، اور کچھ نصیحت بھی فرما دیں۔

طالب علم:
میں ابھی مفتی نہیں، البتہ بننے کا عزمِ مصمم رکھتا ہوں۔ چلیں، توبہ کر لیں، پڑھیں… اور یاد رکھیں:
یہی عقیدہ اہلِ سنت ہے کہ کسی بھی صحابی کو برا بھلا نہ کہا جائے، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میرے بعد ان کو طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بناؤ۔ پس جس شخص نے ان سے محبت کی، تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی، اور جس نے ان سے بغض رکھا، تو اس نے میرے بغض کے سبب ان سے بغض رکھا، اور جس نے انہیں ایذا پہنچائی، تو اس نے ضرور مجھے ایذا پہنچائی، اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی، تو ضرور اس نے اللہ پاک کو ایذا پہنچائی، اور جس نے اللہ پاک کو ایذا پہنچائی، تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرمائے۔ [سنن الترمذی، ج: ۵، ص: ۶۹۶، حدیث: ۳۸۶۲، مطبعة البابی، مصر]

ایک حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

میرے صحابہ کو برا نہ کہو، کیونکہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے، تو میرے صحابہ میں سے کسی ایک کے نہ مد کو پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی مد کے آدھے کو۔ [صحیح البخاری، ج: ۵، ص: ۸، حدیث: ۳۶۷۳، بولاق، مصر]

یہی عقیدہ اہلِ سنت ہے۔ اہلِ سنت میں چھپے ہوئے رافضی کو پہچانیں، جو خود کو اہلِ سنت بتا کر عوام کو دھوکہ دینے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ یہ رافضی اہانت کا زہر میٹھے الفاظ میں چھپا کر امت کو گمراہ کر رہے ہیں۔ ہوشیار رہیے۔ محبتِ اہلِ بیت کا دعویٰ، مگر صحابہ پر طعن — یہی ہے رافضیت! ان سے ہمیشہ بچتے رہو۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں