دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

حضورﷺ جب گناہوں سے پاک تھے تو استغفار کیوں کرتے تھے؟

عنوان: حضورﷺ جب گناہوں سے پاک تھے تو استغفار کیوں کرتے تھے؟
تحریر: محمد فرقان رضا حنفی
پیش کش: جامعہ عربیہ انوارالقرآن، بلرام پور


حضورﷺ جب گناہوں سے پاک تھے تو استغفار کیوں کرتے تھے اور اللہ نے قرآن میں کیوں فرمایا کہ: وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ اے محبوب! اپنے گناہوں کی معافی چاہو؟

وہابیوں دیوبندیوں کے اعتراض کا منہ توڑ جواب

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ۲۴ ویں پارے سورۂ مومن کی آیت نمبر ۵۵ میں ارشاد فرماتا ہے:

{وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ: اور اپنے گناہوں کی معافی چاہو۔}

یاد رہے کہ آیت کے اس حصے میں تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی خطاب ہونا متعیّن نہیں، بلکہ اس کا احتمال ہے۔ اور اس صورت میں اس کے جو معنی ہوں گے ان میں سے ایک اوپر بیان ہوا کہ: اے حبیب! صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنی امت کے گناہوں کی معافی چاہیں۔ دوسرے معنی یہ ہوں گے کہ: اے حبیب! صلی اللہ علیہ وسلم اگر بالفرض کوئی معصیَت واقع ہو تو اس سے استغفار واجب ہے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے ۲۶ ویں پارے سورۂ محمد آیت نمبر ۱۹ میں ارشاد فرماتا ہے:

{وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ: اور اے حبیب! اپنے خاص غلاموں اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو۔}

یہاں آیت میں اگر خطاب حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی گناہ ہوا تھا جس کی معافی مانگنے کا فرمایا گیا کیونکہ آپ یقینی طور پر گناہوں سے معصوم ہیں، بلکہ یہ کسی دوسرے مقصد کے پیش نظر فرمایا گیا ہوگا۔ جیسا کہ امام جلالُ الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گناہوں سے معصوم ہیں، اس کے باوجود آپ کو گناہ سے مغفرت طلب کرنے کا فرمایا گیا (یہ امت کی تعلیم کے لیے ہے)، تاکہ اس معاملے میں امت آپ کی پیروی کرے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغفرت طلب بھی کی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: میں روزانہ سو مرتبہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغفار کرتا ہوں۔

علامہ احمد صاوی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں: یہاں حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ’’ذنب‘‘ کی جو نسبت کی گئی، اس سے مراد آپ کے اہلِ بیت کی خطائیں ہیں۔ نیز اس آیت میں امت کے لیے بھی بشارت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی بھی مغفرت طلب فرمائیں، اور آپ کی شان یہ ہے کہ آپ شفاعت فرمانے والے اور مقبول الشفاعت ہیں (تو آپ جس کی مغفرت طلب فرمائیں گے، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ضرور قبول ہو گی۔)

رہی بات حضور ﷺ کے توبہ کرنے کی تو اُس کی چند حکمتیں ہیں، ملاحظہ کیجئے:

نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے استغفار کرنے کی حکمتیں:

(1) علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بطورِ عاجزی یا تعلیم اُمت کیلئے استغفار کرتے تھے۔

(2) علامہ ابن بطال مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: انبیائے کرام علیہم السلام (کسی گناہ پر نہیں بلکہ) لوگوں میں سب سے زیادہ شکر گزاری و عبادت گزاری کے باوجود اللہ پاک کا کماحقّہ حق ادا نہ ہوسکنے پر استغفار کرتے ہیں۔

(3) امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ بلند درجات کی طرف ترقی فرماتے ہیں، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک حال سے دوسرے حال کی طرف ترقی کرتے تو اپنے پہلے حال پر استغفار کرتے ہیں۔

(4) حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: توبہ و استغفار روزے، نماز کی طرح عبادت بھی ہے، اسی لئے حضور انور صلَّی اللہ علیہ وسلم اس پر عمل کرتے تھے، ورنہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم معصوم ہیں، گناہ آپ کے قریب بھی نہیں آتا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں