عنوان: | حضورِ انور ﷺ کے شمائل وخصائل (قسط 3) |
---|---|
تحریر: | محمد فرقان رضا حنفی |
پیش کش: | جامعہ عربیہ انوارالقرآن، بلرام پور |
رُخِ انور: حضورِ اکرمﷺ کا چہرۂ انور جمالِ االہٰی کا آئینہ اور انوارِ تجلی کا مظہر تھا۔ نہایت ہی وجیہہ پُر گوشت اور کسی قدر گولائی لیے ہوئے تھا۔ حضرت سیّدُنا جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضور ﷺ کو ایک مرتبہ چاندنی رات میں دیکھا۔ میں ایک مرتبہ چاند کی طرف دیکھتا اور ایک مرتبہ آپ کے چہرۂ انور کو دیکھتا۔ تو مجھے آپ کا چہرہ چاند سے بھی زیادہ خوب صورت نظر آتا تھا۔ (سیرتِ مصطفٰے ﷺ ص: 393)
حضرت سیّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مٙا رٙأٙیْتٙ شٙیْأٙٙ اٙحْسٙنٙ مِنْ رّٙسُوْلِ اللّٰہِ صٙلّٙی اللّٰہ عٙلٙیْہِ وٙسٙلّمٙ یعنی حضور ﷺ سے زیادہ حٙسین وجمیل اور بہتر کسی چیز کو نہ دیکھا۔ (مدارج النبوّة ج، 1 ص: 15)
حضرت سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ﷺ کا چہرہ (چمک دمک میں) تلوار کے مانند تھا؟ تو آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ آپ کا چہرہ چاند کے مثل تھا۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ رسول اللہ ﷺ تمام انسانوں سے بڑھ کر خوبرُو اور سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے تھے۔ (سیرتِ مصطفٰے ﷺ ص: 393)
سیّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کا چہرۂ انور دائرۂ قمری کی مانند تھا۔ دائرۂ قمری ہالہ کو کہتے ہیں جسے فارسی میں خرمن ماہ کہا جاتا ہے۔ (مدارج النبوّة ج، 1 ص 16)
حضرت سیّدُنا مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم آپ ﷺ کا حلیۂ پاک کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو شخص آپ کو اچانک دیکھتا، وہ آپ کے رعب داب سے ڈر جاتا اور پہچاننے کے بعد آپ سے ملتا تو وہ آپ سے محبت کرنے لگتا تھا۔ حضرت سیّدنا عبد اللہ بن اسلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے چہرۂ انور کے بارے میں یہ کہا کہ میں نے جب حضور ﷺ کے چہرۂ انور کو بغور دیکھا تو مٙیں نے پہچان لیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا نہیں ہے۔ (سیرتِ مصطفٰے ص: 393)
حضرت سیّدُنا کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ جوکہ فصیح ترین شعراء صحابہ میں سے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی پیشانی پر جب شکن پڑتی تو آپ کا چہرۂ انور پارۂ قمر کی مانند چمکنے لگتا۔ حضرت سیّدُنا ابن ابی ہالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے کہ مُشاہدہ کرنے والوں کی نظر میں حضورِ اکرم ﷺ عظیم بُزرگ، معظّم اور مہیب تھے۔ گویا کہ آپ کا چہرۂ انور چودھویں رات کے چاند کی مانند روشن وتاباں تھا۔ (مدارج النبوّة ج، 1 ص: 16.17)
اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ نے کیا خوب فرمایا:
چاند سے منہ پہ تاباں درخشاں دُرود
نمک آ گیں صباحت پہ لاکھوں سلام
جس سے تاریک دل جگمگانے لگے
اُس چمک والی رنگت پہ لاکھوں سلام
اہلِ سیر صباحت وملاحت کے درمیان فرق کرتے ہیں کہ صباحت حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام کی صفت تھی اور ملاحت حضورِ انورﷺ کی نسبت مبارکہ ہے چنانچہ حضور ﷺ نے فرمایا: مجھ میں ملاحت یعنی (نمکینی) ہے اور میرے بھائی یوسف میں صباحت یعنی (خوبصورتی)۔ (مدارج النبوّة ج، 1 ص: 15)
رُخِ زیبا کے معجزات: حضرت سیّدُنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: کہ میرے پاس جبریل امین آئے اور انہوں نے مجھ سے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کو سلام فرماتا ہے نیز اس نے آپ کے لیے یہ پیغام بھیجا ہے کہ اے میرے محبوب! میں نے یوسف علیہ السّلام کو اپنی کرسی کے نور سے لباس حسن زیب تن کرایا تھا جبکہ آپ کے رُخِ انور کو اپنے عرش کے نور سے لبادۂ حُسن عطا کیا ہے۔
حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں صبح کے وقت کپڑا سی رہی تھی کہ میرے ہاتھ سے سوئی گر پڑی۔ میں نے ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر سوئی نہ مل سکی۔ اسی اثناء میں رسولِ خُداﷺ اندر تشریف لے آئے۔ آپ کے رخ انور سے ایسی شاعیں پھوٹیں کہ مجھے سوئی نظر آ گئی۔ پھر میں نے یہ بات حضور ﷺ کو بتائی تو آپ نے فرمایا۔ اے حمیراء! افسوس از حد افسوس ہے (تین بار فرمایا) اُس شخص پر جو میرے چہرے کی زیارت سے محروم رہ گیا۔ (خصائصِ کبریٰ ج، 1 ص: 155)
محراب ابرو: آپ کی بھویں دراز وباریک اور گھنے بال والی تھیں۔ اور دونوں بھویں اس قدر متصّل تھیں کہ دُور سے دونوں ملی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔ اور اُن دونوں بھوؤں کے درمیان ایک رٙگ تھی جو غصّے کے وقت اُبھرتی تھی۔ (سیرتِ مصطفٰے ﷺ ص: 394)
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ابروئے مبارک کی مدح میں فرماتے ہیں:
جن کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی
اُن بھوؤں کی لطافت پہ لاکھوں سلام