عنوان: | تم الیاس قادری کو نہیں جانتے |
---|---|
تحریر: | ابو تراب سرفراز احمد عطاری مصباحی |
تم الیاس قادری کو نہیں جانتے۔ وہ کسی سے بات نہیں کرتا تھا حالانکہ وہ قوت گویائی رکھتا تھا۔ وہ کسی کی طرف نگاہ اٹھا کے نہیں دیکھتا تھا حالانکہ بصارت سلامت تھی، بلکہ اس کی بصیرت کی رسائی کی حد کیا تھی، اللہ ہی بہتر جانے۔
وہ بہت گہرے دریا کی طرح تھا، اس قدر اس میں گہرائی کہ جس کی تہہ تک پہنچنا عادۃً ممکن نہ تھا۔ ان سب معاملات کے باوجود اس کے پاس لوگوں کی ایک بھیڑ جمع رہتی، بڑے سے بڑے سیٹھ، وقت کے بڑے بڑے حکمران اس کے پاس لائن میں لگ کر ملاقات کو سعادت مندی سمجھتے۔
کوئی دعا کے لیے کہتا تو اس کی مراد پوری ہو جاتی، کوئی درد کی جگہ پر ہاتھ رکھواتا، تو اس کو درد سے شفا مل جاتی۔ شاید یہ ان لوگوں میں سے تھا جن کو ہم مجذوب کہتے ہیں جو ذکر الہی اور یاد الہی میں اپنے آپ کو فنا کر بیٹھتے ہیں، جو بیٹھے تو زمین پر ہوتے ہیں مگر لوح محفوظ ملاحظہ کرتے ہیں۔
ایک دن میں نے بھی ارادہ کیا کہ میں اس ہستی سے ملاقات کروں، اس کا قرب حاصل کروں، اور اپنے دل کی مرادیں بیان کرکے برکتیں حاصل کروں۔
مدینہ منورہ کی پر کیف فضائیں، بھینی بھینی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں جنت کی خوشبو کا مزہ دے رہی تھی، اور یہ رات کا وقت تھا جب ہم جنتی پہاڑ یعنی احد شریف کے دامن میں سید الشہداء سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے قدموں کی جانب برکتیں حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
اس نورانی اور پرسوز ماحول میں دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوری کے ایک رکن حاجی وقار المدینہ اپنا ذاتی واقعہ بیان کر رہے تھے جو انھیں مجذوب بزرگ سے متعلق تھا۔ وہ اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے مزید یوں لب وا ہوئے:
میں اس مجذوب بزرگ کی برکتیں حاصل کرنے کے لیے لائن میں لگ گیا، مجھے پتہ چلا کہ وہ تو عرصہ دراز سے کسی سے بات بھی نہیں کرتے اور کسی کی طرف نگاہ اٹھا کے بھی نہیں دیکھتے، خیر میں لائن میں لگا ہوا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا لیکن کیا دیکھتا ہوں، اچانک وہ میری طرف اشارہ کرتے ہیں اور مجھے اپنے پاس بلاتے ہیں۔
میں تھوڑی دیر کے لیے چونکا، جھجھکا کہ یہ تو کسی سے بات بھی نہیں کرتے اور کسی کو یوں دیکھتے بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے مجھے کیسے دیکھ لیا اور یہ تو مجھے اپنے پاس بلانے لگے، میں کچھ دیر کے لیے حیران ہو گیا اور سکتے میں پڑ گیا لیکن جھجھکتے ہوئے میں ان کے پاس جا پہنچا۔
احد شریف کے دامن میں یہ گفتگو سنتے ہوئے ایک الگ ہی لطف آ رہا تھا، پھر وہاں کی میٹھی میٹھی ہوا اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کا لطف تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔
رکن شوری فرمانے لگے: آگے کا واقعہ مزید دلچسپ ہے۔ اس مجذوب بزرگ نے باقی لائن میں لگے افراد کی طرف اشارہ کیا کہ وہ یہاں سے باہر چلے جائیں، اب میں اور وہ مجذوب بزرگ ایک کمرے میں تنہا تھے، انہوں نے مجھ سے تقریباً دو گھنٹے گفتگو کی۔
میری عقل اپنا دم توڑ رہی تھی کہ جو عرصہ دراز سے کسی سے بات نہ کرتا ہو، اس نے مجھ سے دو گھنٹے تک گفتگو کی۔
اس پر مزید لطف یہ کہ انہوں نے چار باتیں مجھے ایسی بتائیں کہ وہ چاروں باتیں ہو بہو تین ماہ کے اندر پوری ہو گئیں۔ چار باتیں کسی اور موقع سے میں بیان کروں گا۔
آخر میں انہوں نے مجھ سے ایک حیران کن سوال کیا:
کیا تم الیاس قادری کو جانتے ہو؟
میں نے ہاں میں سر ہلایا اور کہا کہ میں ان کو کیسے نہیں جانوں گا؟ ان کے مجھ پر بہت احسان ہیں، حتیٰ کہ مجھے نیکیوں کا ماحول عطا کیا، میرے گھر بار کو سنتوں کا پابند کیا، مزید کرم نوازی یہ کہ دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا رکن منتخب کیا۔
انہوں نے کہا: تم الیاس قادری کو نہیں جانتے۔
مجھ پر کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی، اور دل ہی دل میں خیالات میں گم، کہ یہ مجذوب بزرگ مجھ سے اس طرح کیوں کہہ رہے ہیں؟ حالانکہ میں تو قبلہ امیر اہل سنت علامہ الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ ہی کا پلا بڑھا ہوا ہوں۔
ان مجذوب بزرگ نے میری چپی کو توڑا، فرمانے لگے: تم واقعی الیاس قادری کو نہیں جانتے، البتہ میں جانتا ہوں۔
میں نے عاجزی سے عرض کیا: حضور! آپ ہی بتائیں کہ الیاس قادری کون ہیں؟
وہ مجذوب فرمانے لگے: اس وقت دنیا میں جس قدر اولیاء حیات ظاہری کے ساتھ ہیں، ان کے سردار کا نام الیاس قادری ہے۔
یہ جملہ سننے کے بعد میں سوچ میں پڑ گیا کہ امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ کا مقام اس قدر بلند و بالا ہے، مجھے اچھی طرح احساس ہوگیا کہ میں تو واقعی قبلہ امیر اہل سنت کو نہیں پہچانتا۔
دوسری طرف مجھے اپنے اوپر بھی رشک آنے لگا کہ اللہ پاک نے مجھے کتنی اعلیٰ نعمت سے سرفراز کیا کہ انھیں امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ نے مجھے اپنے قدموں میں قبولیت سے سرفراز کر رکھا ہے۔
میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس مجذوب کی دست بوسی کرکے باہر آگیا، اور اپنی قسمت پر ناز کرنے لگا۔ ہم مخاطبین بھی امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ کی بلند مقامی سن کر دنگ رہ گئے اور اللہ پاک کے اس فضل و کرم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے الحمد للہ پڑھنے لگے۔
نگران شوری کا ایک جملہ سنا تھا، وہ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا اور وہ یہ تھا کہ: الیاس قادری کی سادگی سے دھوکا مت کھاؤ آج مجھے اس جملے کا مطلب بخوبی سمجھ میں آگیا تھا۔
اللہ پاک سیدی و سندی و مرشدی امیر اہل سنت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ کا سلامت رکھے،
آپ کو عمر خضری عطا فرمائے، آپ کی صحت و عافیت میں خوب برکات عطا فرمائے، آپ کی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے، آپ کی بنائی ہوئی تحریک کو رہتی دنیا تک سلامت رکھے بلکہ مدینہ پاک کے صدقے ترقی و عروج سے ہمیشہ ہمکنار رکھے، ہم گناہگاروں کو آپ کی تربیت پر عمل پیرا بنائے۔
یا خدا میرے مرشد کو آباد رکھ
ان کے سارے گھرانے کو بھی شاد رکھ
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وسلم