عنوان: | اسلام، دینِ رحمت و آسانی |
---|---|
تحریر: | سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
اسلام وہ دین ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے۔ یہ انسان کے ہر پہلو کو ملحوظ رکھتا ہے؛ نہ انسان پر غیر فطری سختی مسلط کرتا ہے، نہ نفس پرستی کی آزادی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو رحمت اور آسانی کا دین بنایا ہے۔
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ (سورۃ البقرۃ: 185)
ترجمہ کنزالایمان: اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو۔
یہ اصول صرف عبادات یا روزے کی حد تک نہیں بلکہ پورے دین پر محیط ہے۔
اسلام میں آسانی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی یہی تھا کہ آپ ہمیشہ امت کے لیے آسانی کو پسند فرماتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
ما خُيِّرَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ بينَ أمرينِ إلَّا أخذَ أيسرَهما ما لم يكنْ إثمًا
ترجمہ: "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو چیزوں میں سے اختیار دیا جاتا تو آپ ہمیشہ آسان تر کو پسند کرتے بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہو۔" (صحیح البخاری: 3560)
اسلام میں سختی کہاں سے آتی ہے؟
اسلام میں جو لوگ سختی دیکھتے ہیں، درحقیقت وہ دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں:
1) یا تو ان کی عقل تنگ ہوتی ہے، وہ دین کے جامع فہم سے محروم ہوتے ہیں۔
2) یا ان کی خواہشات وسیع ہوتی ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ دین ان کی خواہشات کے مطابق ڈھل جائے
ایسے لوگ یا تو خود پر ناجائز سختی مسلط کر لیتے ہیں یا دین میں نرمی کے نام پر اسے خواہشات کی غلامی میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنَّ الدِّينَ يُسْرٌ، ولَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أحَدٌ إلَّا غَلَبَهُ
ترجمہ: "یقیناً دین آسان ہے، اور جو شخص دین میں سختی اختیار کرے گا، وہ اس پر غالب نہ آ سکے گا۔" (صحیح البخاری: 39)
بدعات، خواہشات اور دین کی وسعت
آج بعض لوگ دین کو اپنی خواہشات کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ وہ نئے نئے مسائل، آزادیاں، اور جدید تعبیرات نکال کر دین کو آسان نہیں، بلکہ خواہشات کے مطابق بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے:
اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُؕ-اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَیْهِ وَكِیْلًاۙ (سورۃ الفرقان: 43)
ترجمۂ کنز الایمان: کیا تم نے اسے دیکھا جس نے اپنے جی کی خواہش کو اپنا خدا بنالیا تو کیا تم اس کی نگہبانی کا ذمہ لو گے۔
یہی لوگ اسلام کی وسعت چاہتے ہیں، لیکن وہ وسعت نہیں جو قرآن و سنت سے آئے، بلکہ وہ وسعت جو خواہشات کو راہ دے۔
اسلام میں سہولت
نماز میں قصر
مسافر کے لیے نماز قصر کر دینا۔
بیماری میں روزے کی رخصت
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ-وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ (البقرہ:185)
ترجمۂ کنز الایمان: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں۔ اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو۔
مسح علی الخفین (موزوں پر مسح)
سردی یا سفر میں آسانی۔ یہ سب مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام میں آسانی رکھی گئی ہے، مگر شرط یہ ہے کہ وہ نصوص (دلائل شرعیہ) سے ہو، نہ کہ خواہشات کی پیروی سے
اسلام ایک معتدل، فطری اور سراپا رحمت دین ہے۔ اس میں نہ شدت پسندی کی گنجائش ہے اور نہ خواہش پرستی کی آزادی۔ جو اس دین کو سخت سمجھے، وہ درحقیقت خود تنگ نظر ہے۔ اور جو اس میں وسیع تعبیر کے نام پر نفسانیت داخل کرے، وہ دین کے ساتھ خیانت کا مرتکب ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم دین کی سہولت سے فائدہ اٹھائیں مگر اس کا غلط مفہوم نہ نکالیں۔ نہ خود پر خودساختہ سختیاں مسلط کریں، نہ نفس کو شریعت کا حاکم بنائیں۔
اللہ رب العزت ہم سب کو شریعت اسلامیہ پر عمل کی توفیق عطا فرمائے! آمین یا رب العالمین