دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

کیا ہم بھی فلسطین پر ظلم کر رہے ہیں

عنوان: کیا ہم بھی فلسطین پر ظلم کر رہے ہیں
تحریر: المیرا قادریہ رضویہ
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

«جیسا بیج لگاؤ گے ویسا ہی پھل ملے گا»

یہ فلسفہ ہر ذی عقل بخوبی جانتا ہے کہ جیسا بیج لگایا جائے گا ویسا ہی پھل ملے گا۔ اور یہ بات فقط درخت کے پھل کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس فلسفے کا حقیقی طور پر تعلق اعمال سے بھی ہے۔ انسان جیسا عمل کرتا ہے، اس کو ویسا ہی بدلہ ملتا ہے۔

آج بیشتر مسلمانوں کا حال یہ ہو چکا ہے کہ نقصان زیادہ ہے اور نفع کم، غم زیادہ ہے اور فرحت کم، دلوں پر بوجھ زیادہ ہے اور سکون کم اور ہر طرف سے ظالم حکمرانوں نے ہمیں گھیر لیا ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ آخر ہمارے ساتھ یہ ناانصافی کیوں ہو رہی ہے؟ تو اے مسلمانوں خوب جان لو کہ اس کی وجہ بھی یہی فلسفہ ہے۔ یعنی جیسا ہم نے بیج بویا ہے ویسا ہی پھل آج مل رہا ہے اور ویسا ہی بدلہ قیامت کے دن ملے گا۔ اگر آج ہماری جان کو نقصان پہنچ رہا ہے اور ہم پر ناحق ظلم حکمرانوں کی طرف سے ہو رہا ہے، تو اس کی وجہ بھی خود ہمارے لگائے ہوئے بیج ہی ہیں۔

اتنا پڑھ کر اب قارئین مجھ پر اعتراض کریں گے کہ ہم نے آخر کون سی نا انصافی اور ظلم کیا ہے؟ آخر یہ لکھنے کا میرا مقصد کیا ہے؟ تو میرا جواب ہے کے اے غفلت کی نیند میں سوئے ہوئے مسلمانوں بیدار ہو کر اپنے گریبان میں جھانکو، غور کرو کہ ظلم کیا ہوتا ہے؟ بھلا خود سے سوال کرو، اپنے اندر سے پوچھو کہ ظلم کیا ہے؟ اور نا انصافی کیا ہے؟ تھوڑی سی بھی عقل والا یہ جان لے گا کہ کسی کا حق مارنا ظلم ہے، اور سچ سامنے آ جانے کے بعد بھی باطل کی موافقت کرنا نا انصافی ہے، جھوٹے کی حمایت کرنا ظلم اور نا انصافی کا اعلی درجہ ہے۔

اب آپ سوال کریں گے کہ بھلا ہم نے کس کا حق مارا اور ہم نے کس باطل کی حمایت کی؟ اے مسلمانوں کیا تم نہیں جانتے ہو کہ فلسطین مسلمانوں کا ملک ہے؟ جانتے ہو نا۔ اور پھر تم تو بڑے چالاک ہو دنیا کی ہر خبر رکھتے ہو، تمہیں یہ بھی بخوبی معلوم ہے کہ آج حالات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ معصوم فلسطینی مسلمانوں کا ملک یہودیوں نے ان سے چھین لیا ہے، ان کے گھروں کو تہس نہس کر دیا ہے، اور بمباری کر کے اور طرح طرح کے ہتھیاروں سے کئی معصوم فلسطینیوں سے ان کے والدین، اولاد اور احباب و مقربین چھین لیے ہیں۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ بے شک ہے !
اور کیا تم یہ نہیں جانتے کہ ظالم کو ظلم کرنے میں مدد کرنا بھی ظلم ہی میں شامل ہے۔ تو بتاؤ کہ اسرائیل کے یہودیوں کو اتنی طاقت اور ایسے پُر ہمت کام کو سر انجام دینے میں کس نے مدد کی؟ اے مسلمان ہاں بڑی ندامت سے کہتی ہوں کہ حامی تم ہی ہو۔

میں نے جو کہا حق ہے۔ اور تمہیں اس کڑوی بات کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ چلو میں تمہیں ثبوت بتاتی ہوں تمہارے ظلم کا: دنیاوی چالاکیوں میں تو تم بڑا آگے ہو، تم یہ بخوبی جانتے ہو کہ جب ہم کوئی چیز خریدتے ہیں تو ہمارے خریدنے سے اس چیز کے بنانے والے کو فائدہ ملتا ہے، ہم جس تنظیم کے پروڈکٹ کو استعمال کرنے کے لیے خریدیں گے تو یعنی سِرًّ ہم یہ چاہ رہے ہیں کہ میرے خریدنے سے اس تنظیم تک اس مال کی رقم پہنچے، جس رقم سے اس کی ترقی ہو۔ یعنی ہمارے خریدنے سے ہم اس بنانے والے کی حمایت کر رہے ہوتے ہیں۔

جب یہ بات تم جانتے ہو تو پھر کیوں تم ان اسرائیلی یہودیوں کی تنظیموں کو سپورٹ کرتے ہو؟ ان کے بنائے ہوئے اموال و اشیاء کو خریدتے ہو؟ کیا یہ ظالم کی حمایت نہیں؟

یاد رکھو! جب تم ان ظالموں کے اموال خرید کر اس کی رقم دے رہے ہوتے ہو تو دراصل تم ان ظالموں کو موقع دے رہے ہوتے ہو کہ لو میں نے تمہاری ترقی میں حصہ دیا، اب اور ظلم میں زیادتی کرو اور ہتھیار بنا کر ان معصوموں پر ظلم کی انتہا کرو۔ کیا تمہیں تمہارا یہ ظلم نظر نہیں آتا؟

آج ہی اپنی آنکھیں کھولو اور اپنے اس مطلبی نفس کو جھنجھوڑو، جانتے ہو نا، جیسا بیج لگاؤ گے ویسا ہی پھل ملے گا۔ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری جان پر ظلم نہ کیا جائے تو تم بھی ظلم کرنا چھوڑ دو۔

اور ذرا اپنے گریبان میں دیکھو کیا ظالم کو ظلم کرتا دیکھ کر خاموش رہنا اور مظلوم کا تماشہ بنتے دیکھنا نا انصافی نہیں ہے؟ ہے بالکل ہے!

اے خدا! کے بندے اگر اپنا بھلا چاہتے ہو تو ان مظلوموں کا بھی بھلا کرو، کیوں کہ جو زمین والوں پر رحم کرتا ہے، آسمانوں کا مالک اس پر رحم کرتا ہے۔ اگر تو فضل و کرمِ خداوندی کا امیدوار ہے، تو آج ہی ان ظالموں کی حمایت سے خود کو الگ کرو اور انقلاب و انصاف کی آواز بلند کرو۔ تاکہ دنیا و آخرت میں تیرے ساتھ بھی ہمیشہ رحم اور انصاف کیا جائے۔ عقل مند کو اشارہ کافی ہے۔

اللہ تعالی ہمیں ہمیشہ حق کے گروہ میں شامل رکھے آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الامین ﷺ

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔