| عنوان: | ہم زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے |
|---|---|
| تحریر: | زرنین آرزو قادریہ |
| پیش کش: | مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد |
محرم الحرام ہجری سال کا پہلا مہینہ ہوتا ہے،جس کی آمد سے مسلمانوں کا دل غمِ حسین اور واقعاتِ کربلا (جو ۱۰ ویں محرم کو پیش آیا تھا) کے سبب رنجیدہ ہو جاتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ اہلِ بیت کی محبت ایمان کا حصہ ہے اور کربلا کے میدان میں انہیں پاک ہستیوں نے اپنی جانوں کو رضائے اِلٰہی کی خاطر قربان کر کے دینِ اسلام کو بلندیوں تک پہنچا گئے۔ اس لیے اُن پر گزرے ظلم و ستم کا غم ہر مومن کو ہوتا ہے۔ لیکن غمِ حسین کی آڑ میں دینِ اسلام کی حدود کو پار کرنا ہرگز جائز نہیں۔ میت پر تین دن سے زیادہ سوگ جائز نہیں اور نوحہ حرام ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُودَ، وَشَقَّ الْجُيُوبَ، وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ (صحیح بُخاری: 1297)
ترجمہ: جو منہ پر طمانچہ مارے اور گریبان پھاڑے اور جاہلیت کا پکارنا پکارے (نوحہ کرے) وہ ہم سے نہیں۔
اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ نوحہ اور ماتم حرام ہے، جو کہ کسی عام میت پر کیا جائے، تو شہدائے کربلا (جو کہ زندہ ہیں) کا ماتم بدرجہ اولیٰ نا جائز و حرام اور جہنّم میں لے جانے والا عمل ہے۔
ماتم اور نوحہ: سر پیٹنا، گریبان پھاڑنا، سینہ کوٹنا، منہ نوچنا، بال کھولنا، سر پر خاک ڈالنا سب جاہلیت کے کام اور سخت حرام ہے۔ موجودہ دور میں کچھ سنی بھی اس میں ملوث ہیں اور ان کاموں کو ثواب سمجھ کر رہے ہیں لیکن ماتم اور نوحہ رافضیوں کا شعار ہے،اہلِ سنت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
یاد رکھیں! اگر خود کو سنی کہتے ہیں تو سنیوں والے ہی کام کریں۔ اہلِ بیت کی محبت کے بغیر،ہمارا ایمان ہی مکمل نہیں،لیکن حد سے بڑھنے والوں کو اللہ اور رسول ﷺ پسند نہیں فرماتے۔خدارا ہوش کے ناخن لیں! اگر کسی ایسی امور میں شامل ہوتے ہیں تو رب کی بارگاہ میں سچّی توبہ کریں اور تمام خرافات کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ یہ سارے کار گناہ، سبب نار اور شہدائے کربلا کو تکلیف پہنچانے والے کام ہیں۔
شہید کو دینِ اسلام میں بہت فضیلت سے نوازا گیا ہے شہیدوں کے جسم کو مٹی نہیں کھاتی اور وہ اپنی اپنی قبروں میں زندہ و سلامت ہوتے ہیں۔ جو اللہ کے لیے مر جاتے ہیں وہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہو جاتے ہیں۔
رب کریم ارشاد فرماتا ہے:
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًاؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَ (آل عمران:169)
ترجمہ کنز الایمان: اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہر گز انہیں مردہ نہ خیال کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں۔
اللہ کریم کے فرمان کے مطابق ہر شہید زندہ ہے اور انہیں روزی دی جاتی ہے۔ شہدائے کربلا نے بھی اپنی جانوں کو دینِ حق کی بقا کے لیے قربان کر کے اللہ کی رضا اور حیاتِ جاودانی کو حاصل کر لیا۔ شہدائے کربلا کے لیے ماتم کرنا سخت حرام ہے؛ کیوں کہ ماتم اور سوگ کسی مرنے والے پر کیا جاتا ہے،جب کہ تمام شہداء زندہ ہیں،تو زندوں کا کیسا ماتم؟
کہہ دو غم حسین منانے والوں کو
مومن کبھی شہدا کا ماتم نہیں کرتے
ہے عشق جان سے بھی زیادہ آل رسول سے
یوں سر عام ہم ان کا تماشہ نہیں کرتے
روۓ وہ جو منکر ہے شہادت حسین کا
ہم زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے
رب کریم ہمیں اہلِ بیت اطہر کی سچّی محبت عطا فرمائے اور تمام تر خرافات سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ
