| عنوان: | مشینیں جیت گئیں سکون ہار گیا |
|---|---|
| تحریر: | سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی |
| پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
جب کبھی ہم پرانے وقتوں کی بوڑھی دعاؤں والی عورتوں کو یاد کرتے ہیں، تو دل میں ایک عجیب سی حرارت جاگتی ہے۔ وہ عورتیں جن کے ہاتھ کھردرے ہوتے تھے مگر دل نرم، جن کی زبان پر کم الفاظ ہوتے تھے مگر ہر لفظ میں خیر چھپی ہوتی تھی، جن کے دن محنت میں اور راتیں عبادت میں گزرتی تھیں۔
صبح کی اذان سے پہلے آنکھ کھولنا، وضو کرنا، تنہا کونے میں دو رکعت نفل پڑھنا، پھر چولہے کی راکھ سے گرمی اٹھا کر سارے گھر کو جگانا۔ یہ ان عورتوں کا معمول تھا۔
وہ کپڑے ہاتھ سے دھوتی تھیں، پانی کنویں سے کھینچتی تھیں، آٹا خود گوندھتی تھیں، لکڑی سے چولہا جلاتی تھیں، اور پھر بھی زبان پر شکوہ نہ ہوتا۔ کیوں؟ کیونکہ ان کا دل خدا سے جڑا ہوا تھا۔ ان کا کام عبادت بن چکا تھا۔ ان کا پسینہ خوشبو بن جاتا تھا، اور ان کی تھکن طہارت کی علامت۔ ان کا وقت قیمتی اس لیے ہوتا تھا کہ وہ ہر لمحہ اللہ کی رضا کے تابع ہوتا تھا۔
آج جب ہر گھر میں بٹن دبانے سے مشینیں کام کرنے لگتی ہیں، جب اوون اور مائیکروویو کھانا تیار کر دیتے ہیں، جب پانی کے فلٹر خود بھر جاتے ہیں، اور واشنگ مشینیں دھلائی سنبھال لیتی ہیں تب یہ سوال دل میں چبھتا ہے کہ:
کیا ہم ان سہولتوں سے بچایا ہوا وقت اللہ کے لیے خرچ کر رہے ہیں کیا ہم اس آسانی کے بدلے شکر ادا کر رہے ہیں؟ یا یہی وقت سوشل میڈیا کی گہرائیوں، فضول باتوں، اور دل کی غفلت میں ضائع ہو رہا ہے؟
نئی ایجادات، ترقی کی علامت ضرور ہیں مگر جب وہ انسان کو اس کی اصل روح سے جدا کر دیں، تو وہ سہولت نہیں، آزمائش بن جاتی ہیں۔ اگر آٹا گوندھنے کی مشین ہمیں تلاوت کے لیے وقت دے، تو وہ نعمت ہے۔
اگر کپڑے دھونے کی مشین ہمیں بچوں کے ساتھ قرآن سننے کا وقت دے، تو وہ اللہ کی رحمت ہے۔ لیکن اگر وہی وقت ہمیں غفلت کی نیند، ڈرامے، یا سکرولنگ میں لے جائے، تو ہم سہولت کے نام پر وقت کے قتل میں شریک ہو جاتے ہیں۔
ہماری ماں، نانی، دادی، خالہ نے ہمیں صرف کھانا پکانے کے طریقے نہیں سکھائے تھے۔ انہوں نے صبر، توکل، اور نیتِ خیر کے آداب سکھائے تھے۔ ان کے اندر کی روحانی طاقت، ان کے کاموں کو عبادت بناتی تھی۔
ہم نے اپنی بچیوں کو بس اتنا سکھایا کہ ٹائم بچانا ہے، لیکن یہ نہ سکھایا کہ وقت کو کہاں لگانا ہے۔ ہم نے انہیں سہولت دی، مگر روحانی ورثہ نہ دے سکے۔ اب وقت ہے کہ ہم نئی نسل کو بتائیں کہ ٹیکنالوجی اللہ کی نعمت ہے، اگر اسے اللہ کی طرف پلٹنے کا ذریعہ بنا لیا جائے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اس وقت کو، جو مشینیں ہمیں بچا کر دیتی ہیں، اللہ کی رضا، عبادت، توبہ، تلاوت، تدبر، اور بچوں کی تربیت میں خرچ کریں۔ ورنہ وہ وقت جس میں دل میں نور نہ ہو، وہ وقت دراصل زیاں ہے۔
یاد رکھو ! پہلے زمانے کی عورت کے کندھے بھاری تھے، مگر دل بوجھ سے آزاد۔ آج کے دور کی عورت کے کندھے ہلکے ہیں، مگر دل بے سکون۔ اب ترقی کا مطلب یہ نہیں کہ کام ہم نہ کریں، بلکہ یہ کہ جو وقت ہمارے ہاتھ آیا ہے، اسے ہم خالص اللہ کے لیے خرچ کریں۔ کیونکہ اگر مشینیں آٹا گوندھیں، اور ہم دل میں اللہ کی یاد نہ گوندھیں، تو ساری ترقی محض دھوکہ ہے۔
اصل کامیابی وہ ہے جب دل تقویٰ سے بھر جائے، آنکھوں میں حیا ہو، اور وقت اللہ کی رضا کے لیے وقف ہو۔ اللہ ہمیں شکر وعبادت کی توفیق عطا فرمائے۔ امین یارب العالمین
