دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

مایوسی کی وادی سے توکل کے سفر تک

عنوان: مایوسی کی وادی سے توکل کے سفر تک
تحریر: سفینہ الحفیظ
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

زندگی ایک مسلسل سفر کا نام ہے کبھی آسانی کا، کبھی آزمائشوں کا۔ لیکن یہ سفر صرف ظاہری نہیں ہوتا، اندرونی بھی ہوتا ہے۔ دل کا، سوچوں کا، ایمان کا۔ بعض راستے پھولوں سے بھرے لگتے ہیں اور بعض کانٹوں سے۔ لیکن جب انسان دل سے اللہ پر بھروسہ کرتا ہے، تو وہی کانٹے اس کے لیے راہ ہموار کرنے والے بن جاتے ہیں۔ یہ مضمون ایک ایسے ہی سفر کی کہانی ہے مایوسی کی وادی سے توکل کے سفر تک۔

پہلے ہم امید سے بھرپور تھے۔ اونچا سوچتے تھے، الگ سوچتے تھے۔ دل میں خواب سجتے تھے، آنکھیں روشن مستقبل دیکھتی تھیں۔ لیکن آہستہ آہستہ جب وہ خواب حقیقت کا روپ نہ دھار سکے، تو ہم نے خواب دیکھنا چھوڑ دیا۔ امیدیں چھوٹی ہونے لگیں، سوچ محدود ہوتی گئی، اور ایک دن احساس ہوا کہ ہم تو بس فکر کے دائرے میں قید ہو گئے ہیں۔

زندگی، جو کبھی آسان معلوم ہوتی تھی، اب ایک نہ ختم ہونے والا امتحان بن چکی ہے۔ ایک مشکل ختم نہیں ہوتی کہ دوسری سر اٹھا لیتی ہے۔ اور ان مشکلات میں انسان خود کو تنہا محسوس کرنے لگتا ہے۔ بھیڑ بھری محفل میں بھی دل خالی لگتا ہے۔ آنکھیں باہر دیکھتی ہیں، لیکن اصل میں اندر کے درد کو پڑھتی ہیں۔ زبان بولنا نہیں چاہتی، دل بس اللہ سے حالِ دل کہتا ہے۔

یہ کیفیت صرف میری یا آپ کی نہیں، ہم سب کی ہے۔ انسان ہیں، حالات سے متاثر ہوتے ہیں، ٹوٹتے ہیں، بکھرتے ہیں، پھر جڑتے بھی ہیں۔ لیکن بعض اوقات یہ ناامیدی اتنی گہری ہو جاتی ہے کہ انسان خود سے کہنے لگتا ہے:

اب کیا ہو سکتا ہے؟ اب کہاں کچھ ہونا ہے؟ اب کون سی امید؟ اب کون سا معجزہ؟

لیکن رکیں! یہ الفاظ ہمارے دل کی آواز نہیں ہوتے، یہ شیطان کے وسوسے ہوتے ہیں۔ وہ شیطان، جو کبھی نہیں چاہتا کہ انسان اچھا سوچے، بہتر کی امید رکھے۔

جب کہ اللہ تعالیٰ تو بار بار فرماتا ہے:

يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلٰى أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۚ إِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ۔ ( الزمر، 53)

ترجمہ کنز الایمان: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے، بے شک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔

جب ہمارا رب، جو پوری کائنات کا مالک ہے، ہمیں امید دلانے والا ہے، تو ہم کس کے کہنے پر مایوس ہو رہے ہیں؟ وہ رب جس کے خزانے لامحدود ہیں، جو بے غیر حساب دیتا ہے، جو ہمیں ہم سے زیادہ جانتا ہے، وہ رب چاہتا ہے کہ ہم صرف اسی پر بھروسہ کریں،اسی کی طرف رجوع کریں۔ اور اسی طرح جب ہم اس پر کامل بھروسہ کر لیتے ہیں،تو دل میں سکون اترنے لگتا ہے ،کیوں کی جو مسئلے ہمیں گھیرے ہوئے ہیں، وہ سب وقتی ہیں۔

ان کی اپنی کوئی پائیدار حقیقت نہیں۔ یہ آزمائشیں ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتیں، وقت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہیں۔ بس ہمیں صبر اور توکل سے کام لینا ہے۔ لیکن اگر ہم ہر بار ہار مان لیں، تو ہم ہر بار وہی تکلیف دہ راستہ اپنائیں گے۔

یاد رکھیں: ہم اس دنیا میں کتنے دن کے مہمان ہیں؟ آخر کار ہمیں اس دنیا میں رہنا ہی کتنا دن ہے؟ یہ تو فانی دنیا ہے، ہم نے تو یہاں سے چلے جانا ہے، یہ زندگی آزمائش ہے، اور ہر آزمائش کے بعد اللہ نے آسانی کا وعدہ کیا ہے:

فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (الانشراح،6)

ترجمہ کنز الایمان: بیشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔

تو پھر کیوں نہ ہم اس امید کو دوبارہ زندہ کریں؟ کیوں نہ ہم اندر کے شور کو خاموش کر کے اللہ کی بات سنیں؟ کیوں نہ ہم خود سے کہیں: میرا اللہ ہے، تو سب کچھ ہے!

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔