| عنوان: | مسلمانوں کی موجودہ حالت اور ضرورت |
|---|---|
| تحریر: | محمد سفیان حنفی مصباحی |
| پیش کش: | الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ |
اسلام ایک ایسا دین ہے جو مکمل ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے۔ یہ دین نہ صرف روحانی اصلاح کی تعلیم دیتا ہے بلکہ دنیاوی ترقی اور فلاح کی بھی رہنمائی کرتا ہے۔ مسلمانوں نے جب اسلام کی تعلیمات پر عمل کیا، تو دنیا کی قیادت کی؛ لیکن جب وہ ان تعلیمات سے دور ہوئے، تو زوال و پستی ان کا مقدر بن گئی۔ موجودہ دور میں امت مسلمہ بظاہر کثیر تعداد میں موجود ہے، لیکن اس کی حالت زبوں حالی کا شکار ہے۔ اس مضمون میں ہم مسلمانوں کی موجودہ حالت، ان کے مسائل، اور ان کے حل کے لیے ضروری اقدامات کا جائزہ لیں گے۔
مسلمانوں کی موجودہ حالت
علمی پسماندگی: مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جدید تعلیم سے محروم ہے۔ تعلیم کا معیار کمزور ہے اور تحقیق کا فقدان ہے۔ دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
اقتصادی کمزوری: کئی اسلامی ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں، مگر پھر بھی غربت، بیروزگاری، اور معاشی ناانصافی عام ہے۔ مسلمانوں کی کثیر آبادی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔
سیاسی زوال: مسلمان ممالک سیاسی اعتبار سے غیر مستحکم ہیں۔ بدعنوانی اور بیرونی مداخلت نے سیاسی نظام کو مفلوج کر دیا ہے۔
دینی انحطاط: اسلامی تعلیمات سے دوری اور عمل کی کمی نے امت کو روحانی طور پر کمزور کر دیا ہے۔ قرآن و سنت کو صرف رسمی طور پر پڑھا جاتا ہے، مگر عملی زندگی میں اس کی جھلک کم نظر آتی ہے۔
مسلمانوں کی موجودہ ضروریات:
علم کی ترویج و اشاعر: مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دینی اور دنیاوی تعلیم دونوں پر زور دیں۔ جدید سائنسی، فنی، اور تحقیقی ادارے قائم کیے جائیں۔ معیاری نصاب تعلیم تیار کیا جائے جو اسلامی اقدار سے ہم آہنگ ہو۔
معاشی خود کفالت: اسلامی مالیاتی نظام کو فروغ دیا جائے، جیسے زکوٰۃ، صدقات، اور وقف۔ اور کاروبار، صنعت، اور ٹیکنالوجی میں خودکفالت حاصل کی جائے۔
دینی شعور بیدار کرنا: علمائے کرام اور دانشوروں کو چاہیے کہ وہ دین کو صرف روایات کی حد تک محدود نہ رکھیں بلکہ اس کو عملی زندگی میں نافذ کریں۔ نوجوان نسل کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرایا جائے۔
کردار سازی: اسلام نے کردار کو بہت اہمیت دی ہے۔ دیانت، صداقت، برداشت، اور عدل جیسے اوصاف کو فروغ دیا جائے۔ ہر مسلمان کو خود سے تبدیلی کی ابتدا کرنی ہوگی جیسا کہ قرآن پاک میں ہے:
اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ( الرعد:۱۱)
ترجمہ: بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔
امت مسلمہ کا روشن مستقبل
اگر مسلمان ان تمام امور پر سنجیدگی سے عمل کریں، تو وہ دوبارہ دنیا کی قیادت کر سکتے ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب مسلمان تعلیم یافتہ، منظم، ایماندار، اور متحد تھے، تو ان کے علم و کردار کی روشنی سے یورپ بھی منور ہوا۔ امت مسلمہ اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔
زوال سے نکلنے کے لیے صرف دعاؤں سے نہیں بلکہ علم، عمل اور اتحاد سے کام لینا ہوگا۔ ہر مسلمان کو انفرادی سطح پر اپنی اصلاح اور اجتماعی سطح پر امت کی بھلائی کے لیے کام کرنا ہوگا۔ تب ہی امت مسلمہ پھر سے وہی عظمت حاصل کر سکتی ہے جو خلافت راشدہ اور بعد کے سنہری ادوار میں اس کا مقدر تھی۔
