| عنوان: | نوجوان اور شہوت |
|---|---|
| تحریر: | محمّد مناظر حسین |
| پیش کش: | مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد |
شہوت نے کہا آج کل میں بہت طاقتور ہو گئی ہوں، ہے کسی میں دم تو کر دکھائے کم۔ میں جب اپنے پر آ جاتی ہوں، عقل پر غالب، کبھی کبھی دین تک چاٹ جاتی ہوں۔ میری ہی وجہ سے کتنی عزتیں نیلام ہوئیں، کتنے مقدمے، فسادات رونما ہوئے، یہاں تک کہ جانوں سے کھلواڑ بھی کرا دیتی ہوں۔ فیسبک، انسٹاگرام، کچھ یوٹیوب چینلز اور سب سے پہلے اسکرین ٹچ موبائل میرے لیے دل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے ہی ذکراللہ، استغفار، خوف خدا کی گونج آتی ہے میں بے بس ہو کر رہ جاتی ہوں۔
پہلے زمانہ کے راہبین نے نکاح نہ کرنے کی ٹھان لی تھی، میرے لیے وہ کھلونا بن گئے۔ کسی کی عزت پر پانی، تو کسی کی جان تک داؤ پر لگا دی۔ ایک مشہور راہب کا قصہ تو شاید آپ بھی جانتے ہوں گے، کہ اس کو بدکاری میں بری طرح پھنسا کر، ایمان کھا کر، موت کے گھاٹ اتار ڈالی۔ جب کہ بعض نے عین وقت پر توبہ کر کے میرا گلا گھونٹنے جیسی آفت کھڑی کر دی۔
کس طرح کے جوان نرغے میں آتے ہیں؟
بارہ سے اٹھارہ کی عمر والے کو پہلے پکڑتا ہوں، جب پندرہ کو قدم رکھتا ہے، اس کی زندگی عجب بے چین ہو جاتی ہے، ہر وقت وہی خیال ، اس عمر میں شرم و حیا بھی کم نہیں ہوتی۔ اس کو سمجھ نہیں آ رہا ہوتا، کہ کیا کروں؟ کوئی مشت زنی میں تو کوئی دوسرے بد راستے پر جا پڑتا ہے۔ جب عمر اٹھارہ کے منہ آتی ہے، دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ سر پر الگ بھوک، دیوانگی سوار ہو جاتی ہے۔ عقل میں فتور جاتا ہے۔ آدمی جوش جوانی میں تمام روک ٹوک ٹھکرا دیتا ہے۔ موقع ملے تو کیا کیا نہیں کر جاتا۔
کہا جاتا ہے کہ جوانی دیوانی ہوتی ہے، حقیقت میں یہ بہت بڑی پریشانی ہوتی ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا حَرِيزٌ حَدَّثَنَا سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ إِنَّ فَتًى شَابًّا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ائْذَنْ لِي بِالزِّنَا فَأَقْبَلَ الْقَوْمُ عَلَيْهِ فَزَجَرُوهُ قَالُوا مَهْ مَهْ فَقَالَ ادْنُهْ فَدَنَا مِنْهُ قَرِيبًا قَالَ فَجَلَسَ قَالَ أَتُحِبُّهُ لِأُمِّكَ قَالَ لَا وَاللَّهِ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ قَالَ وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِأُمَّهَاتِهِمْ قَالَ أَفَتُحِبُّهُ لِابْنَتِكَ قَالَ لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ قَالَ وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِبَنَاتِهِمْ قَالَ أَفَتُحِبُّهُ لِأُخْتِكَ قَالَ لَا وَاللَّهِ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ قَالَ وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِأَخَوَاتِهِمْ قَالَ أَفَتُحِبُّهُ لِعَمَّتِكَ قَالَ لَا وَاللَّهِ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ قَالَ وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِعَمَّاتِهِمْ قَالَ أَفَتُحِبُّهُ لِخَالَتِكَ قَالَ لَا وَاللَّهِ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ قَالَ وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِخَالَاتِهِمْ قَالَ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهِ وَقَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَهُ وَطَهِّرْ قَلْبَهُ وَحَصِّنْ فَرْجَهُ فَلَمْ يَكُنْ بَعْدُ ذَلِكَ الْفَتَى يَلْتَفِتُ إِلَى شَيْءٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ حَدَّثَنِي سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ أَنَّ أَبَا أُمَامَةَ حَدَّثَهُ أَنَّ غُلَامًا شَابًّا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَهُ (مسند امام احمد: 21189)
ترجمہ: حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! ﷺ مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجئے لوگ اس کی طرف متوجہ ہو کر اسے ڈانٹنے لگے اور اسے پیچھے ہٹانے لگے، لیکن نبیﷺ نے سے فرمایا میرے قریب آجاؤ، وہ نبیﷺ کے قریب جا کر بیٹھ گیا، نبیﷺ نے اس سے پوچھا کیا تم اپنی والدہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبیﷺ نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی ماں کے لئے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی بیٹی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبیﷺ نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی بیٹی کے لئے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی بہن کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبیﷺ نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی بہن کے لے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی پھوپھی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں نبیﷺ نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی پھوپھی کے لئے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی خالہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ اللہ کی قسم کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی لﷺ نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی خالہ کے لئے پسند نہیں کرتے، پھر نبیﷺ نے اپنا دست مبارک اس کے جسم پر رکھا اور دعاء کی کہ اے اللہ! اس کے گناہ معاف فرما، اس کے دل کو پاک فرما اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما، راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد اس نوجوان نے کبھی کسی کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔
سوچنا چاہیے کہ جس سے تم بدکاری کا ارادہ کرتے ہو وہ بھی تو کسی کی بیٹی ہی ہے، اور اسلام کی بنیادی تعلیم ہے کہ دوسرے کے لیے وہی سوچو جو اپنے لیے چاہتے ہو۔
جیسا کہ سرور کائنات ﷺ فرماتے ہیں:
لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه (مسلم 129)
ترجمہ: تم میں سے کوئی بھی شخص اُس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔
آخر ایک نوجوان اس عجیب کیفیت میں کیا کرے؟ کیا اسلام میں اس کا کوئی حل بھی موجود ہے؟ جی ہاں وہ واحد دین، دین اسلام ہی ہے جو کہ ہر موڑ پر اپنے ماننے والوں کی رہنمائی کرتا ہے۔
رسول پاکﷺ نے تو فرما دیا ہے: اے جوانو! تم میں جوکوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی استطاعت نہیں وہ روزے رکھے کہ روزہ قاطعِ شہوت ہے۔ (بخاری:5066، تفسیر صراط الجنان سے)
بہار شریعت میں اس متعلّق ہے:
اور شہوت کا غلبہ ہو، مہر و نفقہ پر قدرت رکھتا ہو اور اندیشہ ہو کہ نکاح نہ کرنے پر زنا کر بیٹھے گا ، اس پر نکاح واجب (شادی نہ کرنا گناہ بن جاتا ہے)۔ (بہار شریعت، ج: 2)
انسان اگر شہوانی خواہشات پر قابو پا لے تو فرشتوں سے بڑھ جاتا ہے ورنہ جانوروں سے بدتر۔ ہر چیز کی ایک حد ہے۔
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
شہوت اپنے محل پر خرچ ہو تو نور ہے اور بے محل خرچ ہو تو نار۔ (مرآۃ المناجیح)
جب جوانی جوش میں آتی ہے ، پھر کسی کی نہیں سنتی، اس لیے کنٹرول کا ایک طریقہ ہے کہ نکاح کر لے ، ورنہ روزہ رکھا کرے۔ جب برے وسوسے آئیں تو استغفار کی کثرت، یاد آخرت، میدان حشر وغیرہ پر غور و فکر کرے۔
