| عنوان: | محرّم غم کا مہینہ پھر نئے سال کی مبارکباد کیوں؟ |
|---|---|
| تحریر: | عالیہ فاطمہ انیسی |
| پیش کش: | مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد |
نئے ہجری سال کی ابتدا مدینہ منورہ کی طرف ہجرت نبوی سے لے کر اب تک چودہ سو چھیالیس سال کا عرصہ بیت چکا ہے، چودہ سو سيتالیسواں سال شروع ہونے والا ہے۔ محرم الحرام اسلامی تقویم ہجری کا پہلا مہینہ ہے۔ جو نہ صرف نیا سال شروع ہونے کی علامت ہے بلکہ خود بھی حرمت والا اور عظمت والا مہینہ ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں محرم کو دیگر مہینوں پر ایک خاص شرف حاصل ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں نواسۂ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے دین کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔
چونکہ اسی مہینے سے اسلامی سال کا آغاز بھی ہوتا ہے۔ تو کچھ لوگ اس ماہ کے آغاز پر سالِ نو کی مبارک باد دینے کو ناجائز یا غیر ضروری سمجھتے ہیں، اس بنیاد پر کہ یہ مہینہ غم کا مہینہ ہے تو پھر مبارکباد کس لیے؟
ایسے موقع پر ضروری ہے کہ ہم محرم کی اصل حقیقت، اس کی حرمت و فضیلت، اور نئے سال کی دعا و خیرخواہی کے اسلامی پہلوؤں پر روشنی ڈالیں۔
نئے سال یا مہینے کی مبارک باد دینا!
نئے سال یا مہینے کی ابتدا پر خیروبرکت کی دعا دینا صحابۂ کرام کا معمول رہا ہے۔
حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ کی روایت جسے امام طبرانی نے المعجم الاوسط میں درج کیا، اس میں ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ نئے سال یا مہینے کی آمد پہ وہ ایک دوسرے کو درج ذیل دعا سکھاتے تھے: اللّٰهُمَّ أدْخِلْهُ عَلَیْنَا بِالأمْنِ وَ الإیْمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالإسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ وَجِوَار مِّنَ الشَّیْطَانِ. اے اللہ! اس (نئے مہینے یا نئے سال) کو ہمارے اوپر امن و ایمان، سلامتی و اسلام اور اپنی رضامندی، نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما۔ (الطبرانی، المعجم الاوسط، 6: 221، حدیث: 6241)
اس سے واضح ہوتا ہے کہ ایک مباح عمل سمجھتے ہوئے نئے شمسی یا قمری سال کے آغاز پر مبارکباد دینا، دعا دینا، نیک تمناؤں اور جذبات کا اظہار کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔ بلکہ یہ ایک مسنون طریقہ ہے۔
محرّم غم کا مہینہ ہے!
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ محرم غم کا مہینہ ہے اس لیے سالِ نو کی خوشی اور مبارک باد دینا مناسب نہیں، غم کا مہینہ کس اعتبار سے؟ وہ اس لیے کہ اس میں واقعۂ کربلا پیش آیا، اور حضرت امام حسین اپنے ساتھیوں کے ساتھ شہید کر دیئے گئے۔
اولاً تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام شہادت کو موت نہیں بلکہ حیات قرار دیتا ہے۔
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰـكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ (البقرہ: 154)
ترجمہ کنزالایمان: اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں۔
اس آیت میں شہداء کو مردہ کہنے سے منع کیا گیا ہے، نہ زبان سے انہیں مردہ کہنے کی اجازت ہے اور نہ دل میں انہیں مردہ سمجھنے کی اجازت ہے۔
ثانیاً یہ کہ اسلام نے تین دن سے زیادہ غم منانے کی اجازت نہیں دی، سوائے بیوی کے لیے شوہر کی وفات پر چار ماہ دس دن کی عدت۔ تو جب اسلام کسی کے فوت ہونے پر مستقل ماتم کی اجازت نہیں دیتا، تو ہر سال واقعۂ کربلا پر رسمی غمگینی اور سوگ کا ماحول پیدا کرنا شریعت میں کیسے جائز ہو سکتا ہے۔
جو لوگ محرّم کو غم کا مہینہ تصوّر کرتے ہوئے ماتم مناتے ہیں، نوحہ کرتے ہیں، اور کوئی بھی خوشی والا کام کرنے، حتٰی کہ نئے سال کی مبارکباد کو بھی نا جائز سمجھتے ہیں۔ ا ن کے اس باطل نظریہ کی جڑ تو یہیں سے کٹ گئی کہ شریعت کی رو سے محرّم میں کسی بھی اعتبار سے غم ماننا جائز نہیں۔
اگر امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی شہید ہوئے تو وہ زندہ ہیں، ان کی شہادت، ان کی قربانی سے ہمیں صبر، عزیمت، دین پر ثابت قدمی اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا سبق لینا چاہیے۔ ماتم، نوحہ اور مستقل غمگینی اسلام کی تعلیمات نہیں۔
پس محرم نہ صرف حرمت اور فضیلت کا مہینہ ہے بلکہ نئے سال کی خوشیوں کے ساتھ ساتھ دین کے لیے قربانی، صبر، اور استقامت کا پیغام بھی دیتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس مہینے کو احترام زیادہ سے زیادہ عبادت اور جائز کاموں کے ساتھ گزاریں، نئی اسلامی سال کی دعا و مبارک باد ایک دوسرے کو دیں، دین اور اپنے ملک کی سلامت کے لیے دعا کریں، اور امام حسین راضی اللہ عنہ کی شہادت کو صرف جذباتی نہیں بلکہ عملی انداز میں یاد رکھیں، اس کی سیرت پر عمل کی کوشش کریں، تاکہ ہمارا ایمان اور کردار مضبوط ہو۔
