دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

اولڈ ایج ہوم( Old age home)مسلمانوں کا اس طرف بڑھتا رجحان

عنوان: اولڈ ایج ہوم (Old age home) مسلمانوں کا اس طرف بڑھتا رجحان
تحریر: بنت شاہد عطاریہ مدنیہ
پیش کش: مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد

اللہ کریم قران کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا (الاسراء:23)

ترجمہ کنزالایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

قرآن کریم میں حکم دیا گیا ہے کہ جب ماں باپ بڑھاپے کو پہنچ جایں تو ان کے ساتھ حسن سلوک کرو ان سے اف نا کہو یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اگر ان کی خوب خدمت بھی کرنی پڑے تو کرو، بڑھاپے کی وجہ سے اگر ان کے لہجے میں چڑچڑاپن نمودار ہو،اگر ان کا پیشاب پاخانہ بستر پر نکل جاتا ہو اور تمہیں وہ صاف کرنا پڑے تو بھی ان سے اف نا کہو یعنی بےزاری کا اظہار نا کرو۔ہر حال میں ان کے ساتھ اخلاقاً پیش آؤ۔

لیکن! ہمارے معاشرے کا حال آج اس کے بر عکس نظر آتا ہے۔ ہمارا مذہب اسلام ہمیں والدین کی تعظیم و توقیر ان سے محبت کا حکم دیتا ہے۔اس کے باوجود؛ ہمارے معاشرے میں ماں باپ کے ساتھ بدسلوکی، بد اخلاقی، بد زبانی ،دل آزاری عام ہوتی جا رہی ہے۔جہاں بڑھاپے میں ان کے ساتھ زیادہ اچھا برتاؤ ہونا چاہیے؛ وہیں آج حال یہ ہے اگر ماں باپ بڑھاپے کو پہنچ جایں تو ان کو بوجھ تصور کرنے لگتے ہیں۔ ان کو گھر میں رکھے کسی بیکار سامان کی مانند سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے آج اولڈ ایج ہوم کی جانب عوام کا رجحان بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

یہ اولڈ ایج ہوم کیا ہیں آئیے جانتے ہیں

اولڈ ایج ہوم در حقیقت مغربی تہذیب و تمدن کا سرمایہ ہے۔عمر رسیدہ لوگوں کے لیے حکومت کے جانب سے ایسے ہاسٹل بناۓ گۓ ہیں جن میں ان کے رہنے، کھانے اور علاج وغیرہ کی صحولتوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ عموماً ان اولڈ ایج ہوم میں دس بارہ سال قبل کسی مسلمان گھرانے کا کوئی فرد نہیں رہتا تھا۔لیکن آج ماں باپ سے بیزار مسلمانوں کی ایک تعددا ہے جو اپنے بوڑھے ماں باپ کو یہاں دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔

اولڈ ایج ہوم کی طرف بڑھتے رجحان کی وجوہات

    اس کی سب سے بڑی وجہ علم دین سے دوری ہے اور یہ خود ماں باپ کی اپنی کمی ہے؛ قوم مسلم اسلامی تعلیمات اور نبوی ارشادات سے کافی دور ہیں۔ اگر یہ قوم اسلامی تعلیمات اور نبوی توجیہات کو اپناتی تو کبھی ان سنگین حالات کا سامنا کرنے کی ضرورت نہ پڑھتی۔لیکن والدین نے اپنی اولاد کو اس طرف کبھی راغب نا کیا؛ بلکہ انہونے اپنے بچوں کو دنیوی اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم (Higher education) دی نیز ان کے ذہنوں میں بس یہ بٹھا دیا کہ پڑھ لکھ کر جلد اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاؤ Self dependent بن جاؤ۔ بس یہی سبب رہا کہ اولاد پڑھ لکھ کر کمانے لگی خود کو آزاد سمجھنے لگی اور ان حالات نے اسے خودسر بنا دیا اور وہ اپنے بوڑھے ماں باپ کو بوجھ ماننے لگی۔اس نے سمجھ لیا کہ اب وہ خود قابل ہے اسے ماں باپ کی ضرورت نہیں رہی۔
  • ایک وجہ مغربی تہذیب کو اپنانا بھی ہے آج ہماری قوم یہود و نصاریٰ کی پیروی میں گامزن ہے ان کی ہر چیز کو اپنانا باعث و فخرسمجھتی ہے۔ اولڈ ایج ہوم سسٹم بھی چونکہ ان ہی کی دین ہے تو ہماری مسلم قوم ان کے نقشے قدم پر چل نکلی ہے۔ماں باپ کو ان ہاسٹل میں چھوڑ کر وہ بیرون ملک شفت ہو جاتی ہے یا کسی دیگر ترقی یافتہ شہر میں جہاں وہ بنا کسی پابندی اور تمام آسائشوں کے ساتھ زندگی گزار سکے۔
  • اس کے علاوہ ہماری قوم کی بیٹیاں جب بہو بنتی ہیں تو اپنے ساس سسر کا وجود اپنے گھر میں برداشت نہیں کر پاتی ہیں اور انہیں اولڈ ایج ہوم میں جانے پر مجبور کر دیتی ہیں تاکہ وہ تنہا کسی بھی ذمہ داری سے آزاد سکون سے اپنی زندگی بسر کر سکیں اور بوڑھے ماں باپ خود بھی وہاں جانے کو تیار ہو جاتے تاکہ ان کے بیٹے کے گھر میں کوئی خلل پیدا نا ہو۔
  • یوں وہ اپنے ہی گھر سے در بدر ہو جاتے اور تہنا زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں حالاں کہ اس عمر میں انہیں زیادہ توجہ اور محبت کی حاجت ہوتی ہے، کیوں کہ وہ عمر کے ساتھ کمزور ہو جاتے ہیں اور کسی نا کسی بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے پوتا پوتی کے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگتا ہے، گھر میں بچوں کی کلکاریوں کی گونج ان کا دل بہلاۓ رکھتی ہے۔وہ اپنے اہل و عیال کو دیکھ کر جیتے ہیں۔گھر میں رشتہ داروں کی آمد سے بھی ان کا دل لگا رہتا ہے۔ لیکن اولڈ ایج ہوم میں اس سب سے دور وہ ایک اداس و محروم زندگی جینے پر مجبور ہوتے ہیں۔

روک تھام کے لیے اقدامات

  • علم دین کو عام کیا جاۓ؛ جب ہماری قوم قرآن و احادیث پر عمل پیرا ہوگی تو سمجھے گی کہ ماں باپ کی خدمت ہر حال میں اس پر فرض ہے۔ جنت پانے کے لیے ماں باپ کو راضی کرنا ضروری ہے۔اگر ماں باپ کو تکلیف پہنچائی تو جہنم کے حقدار ٹھریں گے۔ خوف خدا جب معاشرے میں عام ہو جاۓ گا تو کوئی اولاد اپنے ماں باپ کو گھر سے در بدر نہیں کرے گی۔
  • اگر ہمارے قوم کی سب بیٹیاں اپنے ساس سسر کو اپنے ماں باپ تصور کر لیں تو ہر گھر امن کا گہوارا بن جاۓ گا۔ان میں یہ احساس پیدا ہو جاۓ کہ اگر میں اپنے ساس سسر کے ساتھ ایسا کروں گی تو کل کو میرے اپنے ماں باپ کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے؛یہ سوچ کر وہ اپنے ساس سسر کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزاریں گی۔
  • ماں باپ بچپن سے ہی اپنی اولاد کی بہترین تربیت کریں، دنیا کے ساتھ دین کی بھی تعلیم دیں، انہیں بڑوں کی اہمیت سمجھایں؛ نیز وہ خود اپنے بزرگوں کے ساتھ اچھا رویہ رکھیں، محبت سے پیش آئیں ان کی عزت و تکریم کریں تاکہ انہیں دیکھ کر ان کی اولاد بھی سیکھے اور آگے ان کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کرے۔

کہ سکتے ہیں؛ کہ ایسے بزرگ جن کا واقعی میں دنیا میں کوئی نہیں، کوئی سہارا نہیں وہ اکیلے رہنے پر مجبور ہیں ان کے لیے اولڈ ایج ہوم ایک انتخاب (Option) ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر اولاد اپنے ماں باپ سے سچی محبت کرے جیسی انہوں نے اس سے کی، ان کی بڑھاپے میں ایسی دیکھ بھال کرے جیسی بچپن میں انہوں نے اس کی کی، ان کا سہارا بنے جیسے وہ اس کا ہمیشہ سہارا بنے؛ تو ان شاءاللہ عزوجل کوئی گھر ایسا نہیں ہوگا جہاں کے بزرگوں کو اولڈ ایج ہوم کا منہ دیکھنا پڑے۔

اللہ کریم امت مسلمہ کو ہدایت عطا فرماۓ ہم سب کو اپنے ماں باپ کا با ادب بناۓ آمین یا رب العالمین۔

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔