دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

بچوں کے ساتھ ہمارا جھوٹا رویّہ(نور نسل:4)

عنوان: بچوں کے ساتھ ہمارا جھوٹا رویّہ (نور نسل: 4)
تحریر: سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

بچوں کے ساتھ جو سب سے پہلا ظلم ہم کر بیٹھتے ہیں، وہ ان سے جھوٹ بولنے کا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے گھروں میں بچوں سے جھوٹ بولنا اتنا عام ہو چکا ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں رہتا کہ یہ جھوٹ ہے۔ سونے کے وقت اگر بچے ساتھ نہیں سو رہے تو بجائے اس کے کہ ہم ان پر معوذتین اور آیت الکرسی پڑھ کر ان کے دل میں اعتماد، سکون اور اللہ پر بھروسہ پیدا کریں، ہم انھیں ڈرا دیتے ہیں۔ کبھی بلی آرہی ہے، کبھی بھیانک آواز نکلنا، کبھی چھت سے لٹکتی کوئی ڈراؤنی شے۔بچے نہ صرف گھبرا کر سوتے ہیں بلکہ ان کے ذہن میں ایک مستقل خوف کی جڑ رکھ دی جاتی ہے۔ وہ بچہ جب کسی بوڑھی عورت کو، کسی بلی کو یا کسی سائے کو دیکھتا ہے، تو لرزنے لگتا ہے۔ اور ہم کہتے ہیں بچے کیوں بزدل نکلتے ہیں؟

اسی جھوٹ کی ایک اور شکل بازار جاتے وقت دیکھی جاتی ہے۔ اگر بچہ ساتھ نہیں جا رہا تو ہم فوراً کہتے ہیں:ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں، ٹیکا لگے گا ! اب سوچئے، ایک تو جھوٹ، دوسرا بچے کے دل میں ڈاکٹر کا خوف، اور تیسرا جب وہ سچ جانتا ہے تو والدین سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ وہ اعتبار جس پر پوری زندگی کی تربیت کھڑی ہوتی ہے۔

چھوٹے بچوں کو پاس بلانے کے لیے مٹھی میں کچھ بند کر کے جھانسہ دینا، کھانے کے وقت ان کی پسندیدہ چیز دکھا کر دھوکہ دینا، کسی چیز کو زبردستی چھین کر کہنا کہ چڑیا لے گئی یہ سب دراصل ہمارے جھوٹے مزاج کی چھوٹی چھوٹی علامتیں ہیں، جو بچوں کی نفسیات میں گہرے زخم چھوڑ جاتی ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ جب ہم خود جھوٹ بول کر بچوں کو سچائی کی تعلیم دینے چلتے ہیں، تو وہ کیا سیکھ رہے ہوتے ہیں؟ ہم کہتے ہیں کہ جھوٹ بولنے سے زبان کالی ہو جائے گی، حالاں کہ وہ دیکھ چکے ہوتے ہیں کہ ہم روز اپنی زبان سے سفید جھوٹ بولتے ہیں۔ کیا بچوں کی آنکھیں اتنی سادہ ہیں کہ وہ ان تضادات کو نہ سمجھیں؟

اور پھر، جذبات سے کھیلنے والی جھوٹی سزائیں اور انعامات: رونا بند کرو تو پوری چاکلیٹ دوں گی، اب کے شور کیا تو سارا دن کمرے میں بند رکھوں گی، اگر بدتمیزی کی تو کبھی ساتھ نہیں لے کر جائیں گے۔ کیا یہ سزائیں واقعی دی جا سکتی ہیں؟ کیا یہ وعدے کبھی پورے ہوتے ہیں؟ نہیں! اور جب نہیں ہوتے تو بچے دل ہی دل میں سیکھ لیتے ہیں کہ وعدہ نبھانا ضروری نہیں۔ ہم اپنے بچوں کے دلوں میں وہی بے یقینی، وہی دو عملی بٹھا دیتے ہیں، جس پر بعد میں ہم خود رو رو کر کہتے ہیں کہ آج کے بچے گستاخ اور جھوٹے ہو گئے ہیں۔

الفاظ کا زہر اور کردار کی شکست

جب کوئی شخص بار بار یہ سنے کہ تم کچھ نہیں کر سکتے، تمہاری بہن تم سے بہتر ہے، تم سے بات کرنا فضول ہے، تو ایک وقت آتا ہے جب وہ اپنے آپ کو اسی ناکارہ پن میں سمیٹ لیتا ہے۔ یہی حال بچوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہم محبت میں یا غصے میں، لاپروائی سے، بچوں کو گندہ بچہ، شیطان، بےوقوف، کند ذہن جیسے القاب دے دیتے ہیں، اور پھر حیران ہوتے ہیں کہ بچہ آخر ایسا کیوں بن گیا؟ اگر بچپن سے ہی ایک بچہ سنتا رہے کہ وہ اردو نہیں پڑھ سکتا، کہ وہ سست ہے، کہ وہ کسی سے بات نہیں کرتا، کہ وہ کسی کے قابل نہیں، تو وہ اپنی شناخت بھی انہی جملوں کے آئینے میں ڈھال لے گا۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں، بلکہ نفسیاتی حقیقت ہے۔

ہمارا معاشرہ جس طرح ظاہری تربیت پر زور دیتا ہے، اسی شدت سے باطنی عزتِ نفس کو کچلتا ہے۔ ہمیں صرف یہ نہیں سکھایا گیا کہ بچوں کو لباس پہناؤ، صاف ستھرا رکھو، بلکہ یہ بھی سکھایا جانا چاہیے تھا کہ ان کے ذہن کو گندگی سے بچاؤ، ان کی خودی کو سلامت رکھو، اور ان کی عزت کا چراغ ان کے اپنے گھر میں ہی نہ بجھاؤ۔ لیکن ہم کیا کرتے ہیں؟ جب بچے دوسرے لوگوں کے سامنے ہوتے ہیں، ہم ان کے بارے میں بدترین الفاظ ادا کرتے ہیں۔ ماں کہتی ہے: میری بیٹی تو بالکل لڑکوں جیسی ہے، باپ کہتا ہے: یہ بیٹا تو کسی سے ملتا ہی نہیں، گھامڑ ہے۔ اور وہ بچہ خاموشی سے ان الفاظ کو اپنے اندر نقش کرتا جاتا ہے۔

تربیت کا مطلب یہ نہیں کہ صرف ڈانٹ دیا، یا ہنسا دیا، بلکہ اصل تربیت یہ ہے کہ ہم بچے کو وہ ماحول دیں جس میں وہ اعتماد سے سانس لے، سچ بولنے سے نہ ڈریں، اپنی خوبیوں پر خوش ہو، اور خامیوں سے لڑنے کی ہمت پائے۔

بچے آئینہ ہوتے ہیں، لیکن اس آئینے میں سب سے پہلے چہرہ والدین کا ہوتا ہے۔ اگر ہم ان سے سچ، محبت اور عزت سے پیش آئیں گے تو وہ بھی انہی بنیادوں پر اپنی دنیا تعمیر کریں گے۔ یاد رکھئے! جھوٹا وعدہ، زبانی تشدد، اور تربیت میں تضاد، صرف بچوں کو ہی نہیں، ایک پوری نسل کو برباد کر سکتا ہے۔ اب بھی وقت ہے، ہم اپنی اصلاح کریں، تاکہ ہماری اگلی نسل اعتماد، سچائی اور وقار کے ساتھ پروان چڑھے۔

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔