دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

والدین کے آئینے میں اولاد کا مستقبل(نور نسل:5)

عنوان: والدین کے آئینے میں اولاد کا مستقبل (نور نسل: 5)
تحریر: سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

بچے جب دنیا میں آتے ہیں، تو خالی تختی کی طرح ہوتے ہیں۔ والدین ہی وہ ہاتھ ہوتے ہیں جو اُن تختیوں پر یا تو علم و حکمت کے خوشنما نقوش رقم کرتے ہیں، یا بےترتیب تجربات کی سیاہی لگاتے ہیں۔ دین اسلام نے والدین کو جو ذمہ داری عطاء کی ہے، وہ محض معاشی سہولیات یا جسمانی پرورش تک نہیں، بلکہ یہ ذمہ داری ایک نسل کو اللہ کی بندگی کے ساتھ جینے کے لیے تیار کرنے کی ہے۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب والدین اپنی ذات کے اندر ایک شعوری انقلاب لے آئیں۔

آج جو والدین کی دہلیز پر ہیں ان کو یہ سوچنا ہوگا کہ ہم نے اولاد کو محبت تو دی، لیکن کیا شعور دیا؟ ہم نے اُنہیں پیزا، موبائل، مہنگے اسکول دے دیے، مگر کیا ہم نے اُنہیں یہ بتایا کہ خودداری، صبر، اور راست گوئی کیا ہوتے ہیں؟ ہم نے اُنہیں لاد کر ہر سہولت دی، مگر کیا ہم نے اُنہیں چلنا سکھایا؟

بچے جب پندرہ برس کے ہوں، تو یہ وقت ہوتا ہے اُن پر ذمہ داری ڈالنے کا۔ لیکن ہمارے ہاں یہ وقت والدین کے گھبرا جانے کا ہوتا ہے، کہ ابھی بچہ چھوٹا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ بیس کا ہوتا ہے، مگر سوچ اور فیصلے دس سال کے بچے جیسے ہوتے ہیں۔ ماں باپ ساری پڑھائی اور جیب خرچ خود اٹھاتے ہیں، بچے صرف خرچ کرتے ہیں۔ لیکن نہ اُنہیں پیسہ کمانے کا شعور دیا جاتا ہے، نہ پیسے کی قدر سکھائی جاتی ہے۔اس لیے وہ 25 سال کی عمر میں صرف اور صرف فضول خرچی میں لگے رہتے ہیں۔پھر شادی کے بعد بیوی بچوں کے نان ونفقہ کے لیے خود کو بے بس شمار کرنے لگتے ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ بچوں کو آہستہ آہستہ زندگی کی اصل دنیا میں داخل کریں۔ چاہے چھوٹا موٹا کام ہو، آن لائن کچھ سیکھنا ہو، یا وقت کا نظم کرنا ہو، ہم اُنہیں یہ ذمہ داری اٹھانے دیں۔ بیٹیاں ہوں یا بیٹے، صرف ڈگریاں ہی نہ سمیٹیں، بلکہ روزمرہ زندگی کے ہنر بھی سیکھائیں۔ کچن سے لے کر شاپنگ تک، بائیک سے لے کر گھر کے بجٹ تک، بچوں کو شامل کیا جائے۔ تربیت کا مطلب ہے: وہ سب کچھ سکھانا جو زندگی میں خود جھیل کر سیکھا گیا۔ تاکہ وہ خود نہ جھیلیں۔

لیکن یہاں ایک اور پہلو بھی ہے۔ رشتوں اور رویوں کی پہچان۔ ہم نے بچوں کو کبھی یہ شعور نہیں دیا کہ زندگی میں لوگ صرف اچھے یا برے نہیں ہوتے، بلکہ ہر شخص میں کچھ سیکھنے والا ہوتا ہے۔ ہم نے کبھی اُنہیں یہ نہیں بتایا کہ دادا، دادی یا چچا، خالہ صرف مہمان نہیں، زندگی کی تجربہ گاہ ہیں۔ ہم نے اُنہیں رشتوں سے جوڑا نہیں، بلکہ دوستوں کی چکا چوند میں کھو جانے دیا۔

والدین اگر اپنے تجربات، اپنی غلطیاں، اپنی کامیابیاں بچوں سے بانٹیں، تو بچوں کو زندگی میں بے یقینی کا خوف نہیں رہتا۔ وہ جانتے ہیں کہ غلطی انسان سے ہوتی ہے، مگر سچائی اور اصلاح انسان کو بلند کرتی ہے۔ بچوں سے مکالمہ کریں۔ اُن سے پوچھیں کہ وہ کس قسم کی زندگی چاہتے ہیں۔ اُنہیں سوچنے دیں، اُن کے جواب پر ہنسنے کے بجائے، اُن کے ساتھ سوچیں۔

پھر جب بیس سال کا مرحلہ آ جائے، تو شادی پر بات کریں۔ شادی صرف دعوت، جہیز، اور کپڑوں کا نام نہیں، بلکہ کردار کی تکمیل ہے۔ اگر لڑکا کسی کو پسند کرتا ہے، یا لڑکی کسی کی تعریف کرتی ہے، تو والدین کا فرض ہے کہ وہ جذبات کی بجائے شعور سے فیصلہ کریں۔ نوجوانوں سے پوچھا جائے کہ وہ کس قسم کے شریکِ حیات چاہتے ہیں۔ پھر اُنہیں بتایا جائے کہ خاندان، دین، ذمہ داری، اور اعتدال کیا ہوتا ہے۔ اگر ہم نے آج اُن کی خواہش کو سمجھ کر دائرے میں نہیں لیا، تو کل وہ دائرہ توڑ کر وہ فیصلہ کریں گے، جو زندگی بھر کا ندامت نامہ بن جائے گا۔

پھر جب تعلیم مکمل ہو جائے، تو شادی میں تاخیر نہ کریں۔ رزق اللہ کے ذمہ ہے، ہم صرف اسباب کے مکلف ہیں۔ اگر بیٹے کو نوکری نہیں ملی، مگر وہ ذمہ داری کا اہل ہے، تو بیٹی کا ہاتھ روکنے کی کیا حاجت؟ اور اگر بیٹی کو علم اور فہم عطا ہوا ہے، تو اُس کے لیے ہم صرف سسرال نہیں، ایک شعوری ماحول کیوں نہیں ڈھونڈ سکتے؟

شادی صرف گھر میں ایک فرد کا آنا نہیں، بلکہ ایک پورا مزاج، ایک تربیت، ایک دنیا کا آنا ہے۔ اگر ہم نے بہو کو مقابل سمجھا، تو بیٹا دونوں کے بیچ کٹتا رہے گا۔ اور اگر ہم نے بیٹی کے شوہر کو امتحان سمجھا، تو وہ یا تو بےحس ہو جائے گا، یا بدگمان۔

افسوس! شادی سے پہلے ہم بچوں کو سب کچھ دیتے ہیں، اور شادی کے بعد سب چھین لیتے ہیں۔ پچیس سال تک اُنہیں مکمل انحصار کی تربیت دیتے ہیں، اور شادی کے بعد اُنہیں ایک دم مکمل خودمختاری دے دیتے ہیں۔ نہ وہ تیار ہوتے ہیں، نہ ہم برداشت کے اہل۔

پھر بڑھاپا آتا ہے۔ اگر ہم نے اُس وقت جائیداد، وراثت، گھر، کاروبار کا بندوبست نہ کیا، تو ہماری زندگی کی محنت ہماری ہی اولاد کے بیچ فتنہ بن جاتی ہے۔ اگر ہم نے یہ طے نہ کیا کہ کون کتنا سنبھالے گا، کس کو کیا دینا ہے، اور کس کا حق کہاں ہے، تو ہمارے بعد وہی اولاد جس کے لیے ہم نے سب کچھ کیا، ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔

سوچنے کی بات صرف اتنی ہے: کیا ہم نے اپنے بچوں کو دین کی روشنی میں زندگی گزارنے کا راستہ سکھایا؟ کیا ہم نے اُنہیں بتایا کہ اللہ کی رضا، والدین کی دعائیں، حلال رزق، درست رویے، اور باادب رشتہ ہی اصل دولت ہے؟

اگر نہیں، تو آج ہی اصلاح کریں۔ اولاد ہماری امانت ہے۔ اگر ہم اُنہیں خود پرستی، آرام طلبی، اور دنیا پرستی سکھا گئے، تو قیامت کے دن یہ سرمایہ وبال بن جائے گا۔

اللہ رب العزت ہر والدین کو اچھی تربیت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الامین ﷺ۔

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔