| عنوان: | بیٹی کی آمد برکت کی نوید |
|---|---|
| تحریر: | مصباح رضویہ |
| پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
بیٹی کی پیدائش اللہ کی رحمت، خوشی اور مسرت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس کے برعکس سمجھی جاتی ہے۔ جو لوگ بیٹی کی پیدائش پر ناخوش ہوتے ہیں وہ نہایت قابلِ مذمت، انسانیت اور مذہب کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ ہر بچہ اپنی نوعیت میں ایک نعمت ہے اور اس کی عزت و محبت کا حق رکھتا ہے۔
اللّٰہ تعالٰی فرماتا ہے:
لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ ۔(الشوریٰ: 49-50)
ترجمہ کنز الایمان: اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت پیدا کرتا ہے جو چاہے جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کر دے بیشک وہ علم و قدرت والا ہے۔
بیٹیاں عطائے عظیم ہوتی ہیں
یقیناً بیٹیاں بہت خاص ہوتی ہیں۔ اللہ نے اپنی پاک کتاب میں صاف صاف لکھ دیا ہے کہ ہم نے ہر چیز کا جوڑا بنایا ہے۔ اس لئے لڑکا اور لڑکی دونوں ہم پلہ ہیں۔ کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ ہاں، جسمانی طور سے لڑکے لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ قوی ہوتے ہیں۔ کسی قسم کا جنسی امتیاز نہیں کرنا چاہئے۔
لڑکیوں کی حفاظت کرنی ہوگی، ان کی بہترین پرورش اور ان کو تعلیم کے مواقع فراہم کرنے ہوں گے۔ ان کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں میں یکساں سلوک کرنا ہوگا۔ حقوق تعلیم، صحت اور غذائیت کو فروغ دینے کیلئے کام کرنا ہوگا۔ ہمیں ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کر نا ہو گا۔ ان کے اعتماد کو بحال کر نا ہوگا اور ماحول کو محفوظ بنانا ہو گا۔
بیٹیاں خدا کا تحفہ
ماں باپ کے لیے رحمت و سکون کا باعث ہوتی ہیں، معاشرے کی تعلیم و ترقی کی ضامن ہوتی ہیں، ایک پوری نسل کی نگہبان ہوتی ہیں۔ بیٹیاں تو وہ سخت جان ہوتی ہیں جو اپنوں کی سرزمین چھوڑ کر غیروں کی وادیوں میں اپنا آشیانہ بناتی ہیں اور اس انجان وادی میں بسنے والے غیروں کو محبت سے اپنا بناتی ہیں۔ واقعی بیٹیاں بہت خاص ہوتی ہیں۔ انہیں ہمیشہ اس اہمیت کا احساس دلاتے رہیں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی خوشی کو ترجیح دیں، وہ نکھرتی جائیں گی۔
وَإِذَا بَشَّرَ أَحَدُهُم بِالْأُنْثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءَ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ ۚ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ (النحل: 58-59)
ترجمہ کنز الایمان: اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصہ کھاتا ہے، لوگوں سے چھپا پھرتا ہے اس بشارت کی برائی کے سبب، کیا اسے ذلت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں دبا دےگا ارے بہت ہی برا حکم لگاتے ہیں۔
آج کے اس تعلیم یافتہ دور میں بھی مسلم معاشرے میں بچیوں کے ساتھ حسن سلوک اللہ کو اتنا پسند ہے کہ اسکے مقابلہ میں گناہ بھی معاف ہو سکتے اور بچیوں کے ساتھ اچھا معاملہ اور ضروریات زندگی کو پورا کرنے میں جہنم سے دوری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جنت میں رہنے کا ذریعہ ہے۔
آج بھی بعض گھر ایسے ہیں جہاں پر بیٹیوں کی پیدائش پر ان کا خاندان غم اور افسوس کا اظہار کرتا ہے اور گھر میں کئی دن تک غم کا ماحول چھایا رہتا ہے اور وہ یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کاش ہمارے گھر لڑکا پیدا ہو جاتا۔ مسلم معاشرے میں زوال پذیر معیار زندگی کی سب سے بڑی وجہ عصری علوم سے بچیوں کو محروم رکھنا ہے اور تعلیم و ملازمت کے سلسلہ میں لڑکیوں کو وہ سہولت حاصل نہیں ہے، جو ہونی چاہیے۔
لڑکیوں کو یہ کہہ کر تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے کہ انہیں کونسی نوکری کرنی ہے، تعلیم حاصل کر کے کیا کریں گی ؟ ایک دن تو شادی ہونی ہے۔ لڑکیوں پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ صنف نازک ہوتی ہیں اور کسی بھی ذمہ داری کو بخوبی انجام نہیں دے سکتی۔ جتنا پیار بعض والدین اپنے بیٹوں سے کرتے ہیں، اس کا عشر عشیر بھی اپنی بیٹیوں سے نہیں کرتے اور ان کی ضرورتوں اور خواہشات کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔
بیٹی رحمت ہے
اَلْحَمْدُ للہ ہم مسلمان ہیں، اور ایک کامل مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی خواہشات کا نہیں احکام الٰہیہ کا پابند ہوتا ہے، اپنی خواہشات کا نہیں بلکہ دینِ اسلام کے اصول وقوانین کا پابند ہوتاہے، ہرحال میں اپنے رب کی رضا پر راضی رہتا ہے، وہ اولاد کو اللہ پاک کی بڑی نعمت سمجھتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ بیٹے اللہ کی نعمت ہیں تو بیٹیاں اللہ کی رحمت، اللہ کریم جسے چاہے بیٹے عطا فرمائے، جسے چاہے بیٹیوں جیسی رحمت سے نوازے اور جسے چاہے بے اولاد رکھے، اس کے ہر کا م میں بے شمار حکمتیں ہوتی ہیں ، ہمیں ہرحال میں اس کی اطاعت وفرمانبرداری کرنی چاہیئے۔
اسلام نے بیٹی کو بڑی عَظَمت بخشی ہے، اس کا وقار بُلند کیا ہے،اسے کئی شانیں دی ہیں، بیٹی اللہ کی رحمت، باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک، گھر کی رونق، ماں کاسکون، بھائیوں کی لاڈلی، ننھیال اور ددھیال کی شہزادی، اپنے کفالت کرنے والوں کوجہنم کی آگ سے بچانے والی، انہیں جنت دلانے والی، فرشتو ں کی طرف سے سلامتی کی دعائیں پانے کا ذریعہ، قیامت تک کے لئے اللہ کریم کی مدد حاصل کرنے کا سبب، جس کی خوشنودی بروزِ قیامت والدین کو محشر کی ہولناکیوں سے بچا کر خوشیاں دلائے گی، بیٹی پر خرچ کرنا صدقہ کرنے کی طرح ہے اور اس پر شفقت کرنے والا خوفِ خدا سے رونے والے کی مثل ہے۔
ہر مسلمان کو چاہئے کہ دینی ماحول سے وابستہ رہے تاکہ دینی معلومات ملیں،برائیوں سے بچنے کاذہن بنے ، اور زمانۂ جاہلیت کی طرح بیٹیوں کو بُرا سمجھنے،انہیں تکلیف دینے اور انہیں حقیر ومنحوس سمجھ کر قتل کردینے جیسی ظالمانہ و وحشیانہ سوچ سے بچا جاسکے،اور بیٹیوں کو اللہ کی رحمت سمجھ کر پیار و محبت سے ان کی پرورش و تربیت کرنے کا جذبہ ملے۔
