دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

درخشندہ ستارے اور عصرِ حاضر کی خواتین کا حال

عنوان: درخشندہ ستارے اور عصرِ حاضر کی خواتین کا حال
تحریر: شاھین فاطمہ امجدی
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک مرد و عورت مرتبے کے اعتبار سے برابر ہیں۔ دونوں پر ایک ہی طرح کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ چوں کہ عورت ہی نئی نسل کی پہلی مربّی ہوتی ہے، اس لیے اس کی تربیت کا اثر پوری انسانیت پر پڑتا ہے۔

قال رسول اللہﷺ الدُّنْيَا مَتَاعٌ، وَخَيْرُ مَتَاعِهَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ۔ (صحيح:۱۴۶۷)

ترجمہ: دنیا تمام کی تمام برتنے کا سامان ہے۔ اور دنیا کا بہترین سامان صالحہ عورت ہے۔

تاریخ اسلام ایسی عظیم خواتين سے بھری ہوئی ہے۔ جنہوں نے انما النساء شقائق الرجال کے اس فرمان کو سچا ثابت کرتے ہوئے دائرۂ اسلام میں رہ کر اپنی صلاحیتوں کے ذریعے امت مسلمہ میں یادگار اور بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں۔ چوں کہ صحابہ کرام رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو کوئی مسئلہ در پیش آتا تو وہ ام المومینین حضرت عائشہ صدیقہ کی طرف رجوع فرماتے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا نے اپنے علم سے صحابہ کرام و صحابیات رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو باریک سے باریک مسائل واضح فرماتیں۔

حضرت صفیہ اور عمارہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما شمشیر کی چمک اور زنجیر کی ہیبت لیے وہ دشمنِ باطل پر برق بن کر گرتیں اور اسلام کی سر بلندی کے لیے جرات مندانہ کردار ادا فرماتیں۔ حضرت مریم علیہا السلام عفت، حیا اور پاک دامنی کی ایسی درخشاں مثال ہیں جن کے بارے میں قرآنِ کریم نے خود گواہی دی، اور انہیں وہ شرف حاصل ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بطن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر نبی کو معجزانہ طور پر پیدا فرمایا۔

اللّٰہ تبارک وتعالی نے قرآن مقدس میں ارشاد فرمایا:

مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَ كُتُبِهٖ وَ كَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ۠ (التحریم:۱۲)

ترجمہ کنز الایمان: اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی پارسائی کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی طرف کی روح پھونکی اور اس نے اپنے رب کی باتوں اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور فرمانبرداروں میں ہوئی۔

اسلام نے وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ کے زرّیں اصول کے تحت عورت کو نہ قید کیا، نہ محروم رکھا، بلکہ گھر کی ملکہ، عزت کی علامت، اور عفت کی محافظ بنایا۔ چہار دیواری کو اس کے لیے ایک محفوظ قلعہ وقاریہ تعلیم عورت کو حجاب کی پرنور چادر میں نظرانداز نہیں کرتی ہے بلکہ اسے مرکزِ نظر بناتی ہے۔ مگر عزت و عصمت کے ساتھ، شہرت یا نمائش کے بے غیر

ماں کا تعلیم یافتہ ہونا کیوں درکار ہے

ایک ماں ہی سب سے پہلی اپنی اولاد کی مربی اور معلمہ ہوتی ہے۔ اگر وہ تعلیم یافتہ ہو تو بچے کی ابتدائی تربیت مضبوط بنیادوں پر استوار ہوگی اور اپنے بچوں کو بہتر اخلاق، دین، تہذیب، وقت کی قدر، اور علم کی اہمیت سکھا سکتی ہے۔ ایسی مائیں قوموں کے روشن مستقبل کی ضمانت ہوتی ہیں۔مالی، طبی، اور گھریلو معاملات میں دانشمندانہ فیصلے کر سکتی ہے، جو پورے خاندان کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں۔

اگر ماں دین کی بنیادی تعلیم سے واقف ہو تو وہ بچوں کو نہ صرف دنیاوی تعلیم بلکہ دینی اقدار بھی سکھا سکتی ہے۔یہی مائیں تعلیم یافتہ نسلیں پروان چڑھاتی ہیں، اور تعلیم یافتہ نسلیں ہی ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل دیتی ہیں،خود مختار ہوتی ہے، اس میں فیصلہ کرنے کا حوصلہ ہوتا ہے، اور وہ خود کو کمزور نہیں سمجھتی۔ ایک کہاوت ہے:

تم مجھے ایک تعلیم یافتہ ماں دو، میں تمہیں ایک تعلیم یافتہ قوم دوں گا۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی والدہ محترمہ (ایک عبادت گزار، نیک اور علم دوست خاتون) نے آپ کو حصولِ علم کے لیے بغداد روانہ کیا۔ جانے سے پہلے چالیس دینار کپڑوں میں سی کر دیے اور فرمایا:

بیٹا! ہمیشہ سچ بولنا، چاہے جان پر بن جائے۔ راستے میں ڈاکوؤں نے قافلے پر حملہ کیا۔ جب ڈاکوؤں نے حضرت غوث پاک سے پوچھا کہ کچھ پاس ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں، میری والدہ نے چالیس دینار میری قمیص میں سیے ہیں۔ ڈاکو حیران رہ گئے۔ جب سردار کے سامنے پیش کیا گیا اور سچائی کا سبب پوچھا، تو فرمایا: میں نے وعدہ کیا ہے کہ ماں کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔ یہ سچائی اور راست بازی دیکھ کر ڈاکوؤں کا سردار بھی تائب ہو گیا اور پورا گروہ ہدایت پا گیا۔

ماں صرف ایک فرد نہیں، بلکہ وہ ایک نسل کی معمار ہوتی ہے۔ اگر ماں تعلیم یافتہ ہو تو وہ اپنے بچوں کو علم و عمل، تہذیب و شرافت، اور دین و دنیا کی بہترین راہوں پر گامزن کر سکتی ہے۔ اس بات کی عملی مثال ہمیں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی حیاتِ مبارکہ سے ملتی ہے۔

تاریخ کی ہر عظیم ہستی کے پیچھے ایک ماں کا نمایا کردار ہوتا ہے۔ اگر عورت دائرۂ اسلام میں رہ کر اور حیا اور پاکیزگی کا دامن تھام کر اختیار کرے تو معاشرے کی بہت سی بیماریاں ختم ہو سکتی ہے۔

ایک نظر عصر نو کی خواتین پر بھی

افسوس! جو عورت کل تک معاشرے کی عزت، پاکیزگی اور کردار کی علامت تھی، آج بعض اوقات خود فتنے اور بگاڑ کا سبب بن رہی ہے، نہ جانے وہ اپنی عظمت کو کیوں بھول بیٹھی ہیں!اسلام کی پیاری شہزادیاں، جو حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا، زینب رضی اللّٰہ عنہا، اور خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا جیسی عظیم ہستیوں کی وارث تھیں، نہ جانے کیوں آج فلمی اداکاراؤں، ماڈلز اور ڈرامائی چہروں کو اپنا آئیڈیل بنا بیٹھی ہیں؟

آج کل کی عورتیں تعلیم یافتہ ہیں مگر تربیت سے محروم، خوبصورت ہیں مگر حیاء سے خالی، بولڈ ہیں مگر کردار سے کمزور،آزادی کی دعوے دار ہیں مگر مقصد سے بے خبر جسے اسلام نے گھر کی ملکہ بنایا،وہ بازاروں کی زینت بننے پر فخر محسوس کرتی ہیں۔ جسے پردے کا تاج دیا،وہ اسے قید خانہ سمجھ بیٹھیں جسے ماں، بہن اور بیٹی کے مقدس رشتے ملے،وہ خود کو ماڈل، انفلوئنسر اور گلیمر کی ملکہ کہلوانا پسند کرتی ہے۔

کبھی عورت علم کا چراغ تھی،آج وہ سوشل میڈیا کی روشنی میں جل رہی ہے۔کبھی اس کی باتوں میں نرمی، دعا، نصیحت ہوا کرتی تھی،آج وہ الفاظ زہر، طعنہ اور تکبر بن چکے ہیں،سوشل میڈیا پر اپنی تصویریں سجانا،اور حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللّٰہ عنہا کی چادر آج فیشن کی قربان گاہ پر لٹکی نظر آتی ہے، جنہیں قرآن نے حجاب کا محافظ بنایا، وہی آج کی لڑکیاں بے حجابی کو آزادی سمجھ بیٹھی ہیں۔ جن ماں باپ نے بیٹی کا نام آمنہ، فاطمہ، یا عائشہ رکھا تھا،کاش وہ سمجھتے کہ ان ناموں کا حق صرف زبان سے نہیں، کردار سے ادا ہوتا ہے۔ آپ وہ ہیں جن کی نسبت حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا سے ہے، جن کی عظمت قرآن میں محفوظ ہے، جنہیں نبی کریم ﷺ نے جنت کی خواتین کی سردار کہا ہے۔

آپ وہ ہیں جن کے لیے حیاء زیور ہے، چادر وقار ہے، اور عفت آپ کی پہچان ہے۔ پھر آج آپ کی آنکھیں فلمی اداکاراؤں میں کیوں حسن تلاش کر رہی ہیں؟آپ کا دل ڈراموں کی ہیروئنز میں مثالی عورت کیوں دیکھ رہا ہے؟ کیا آپ بھول گئیں آپ کی اصل شہزادیاں کون تھیں؟

حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا جو پردے کی اس قدر پابند تھیں کہ نابینا صحابی کے سامنے بھی چہرہ چھپا لیتیں۔حضرت زینب رضی اللّٰہ عنہا جو کربلا میں بھی حیاء، غیرت اور صبر کی چادر تھامے رہیں۔حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا جنہوں نے مال و دولت کو دینِ محمدی پر قربان کر دیا، شہرت کے پیچھے نہ بھاگیں۔

اور آج آپ کی انگلیاں انسٹاگرام پر ماڈلز کو فالو کر رہی ہیں،آپ کی زبان پر اداکاراؤں کی تعریفیں ہیں،آپ کا لباس فیشن کے تابع،اور آپ کی آنکھوں میں دنیا کی چمک۔ کیا یہی وہ راستہ ہے جو جنت کی طرف جاتا ہے؟ آپ کو بنایا گیا تھا عزت کا علمبردار، نہ کہ بازاروں کی رونق اور اسکرین کا تماشا۔ کیا آپ کو خبر نہیں؟

جو ماں نیک ہو، وہ پوری نسل کو سنوار دیتی ہے۔ جو بہن باحیا ہو، وہ بھائی کی غیرت کو جگا دیتی ہے۔ جو بیٹی دین دار ہو، وہ گھر کو جنت بنا دیتی ہے۔ مگر آج کچھ بچیاں ایسا لباس پہنتی ہیں جو نہ دین سے ہے، نہ تہذیب سے۔ایسی زبان استعمال کرتی ہیں جو نہ ماں کی تربیت سے ہے، نہ دین کی روشنی سے۔ایسا رویہ اختیار کرتی ہیں جو فاطمی کردار سے کوسوں دور ہے۔

کیا ایسی ماؤں کی گود سے خالد ابن ولید، طارق بن زیاد، شیخ عبدالقادر جیلانی یا فاطمہ بنت عبد اللّٰہ جیسی نیک سیرت اولاد پیدا ہو سکتی ہیں؟ بے ادب ماں با ادب اولاد جن سکتی نہیں معدن زر معدن فولاد بن سکتی نہیں

لوٹ آئیں! واپس آ جائیں اپنے اصل کی طرف وہاں جہاں شرم ہے، سادگی ہے، اور حقیقی عزت ہے۔ قرآن کو اپنا زیور بنا لیں،سیرت کو اپنا راستہ بنا لیں،اور ان عورتوں کو اپنا آئیڈیل بنائیں جن کے کردار پر رب راضی تھا۔دنیا کی چند لمحوں کی شہرت کے لیے اپنی ابدی نجات کو مت گنوائیں۔ فیشن، شہرت، اور اسکرین آپ کو وقتی واہ واہ تو دے سکتی ہے،لیکن دل کا سکون، قبر کا نور اور جنت کا رستہ صرف دین میں ہے۔

آج امت مسلمہ کو ایسی ماؤں کی ضرورت ہے جو امام بخاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ جیسے عالم، اور ام سلیم جیسی فداکار مائیں جو اپنی اولاد کو اسلام کی خدمت کے لیے وقف کر دیں۔ عورتیں اپنے اندر خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا کی عظمت، فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا کا صبر و استقلال، اور عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کا وقار، اور خولہ رضی اللہ عنہا کی بہادری جمع کریں اگر عورتیں یہ کردار ادا کریں تو معاشرہ پھر سے سنور سکتا ہے۔

اللہ رب العزت سے دعا وہ ہمیں ان عظیم ہستیوں اور درخشندہ ستاروں کے نقشہ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ارے دلوں میں معاشرے اصلاح کا جذبہ عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔