| عنوان: | حضرت امام جبلِ صبر و استقامت |
|---|---|
| تحریر: | عائشہ ضیائی مئو |
| پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
ماہ محرم الحرام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یادیں لے کر طلوع ہوتا ہے، ویسے تو ہر مہینہ ہر دن امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے۔لیکن ماہ محرم الحرام کو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک خاص نسبت حاصل ہے۔صدیوں پہلے انہوں نے جو عزیمت کی داستان رقم کی ہے،اور جس طرح دین کے گرتے ہوئے پرچم کو اٹھایا۔آج اہل اسلام کاںٔنات کے گوشے گوشے میں ان کو خراج پیش کر رہی ہے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بار بار ابن زیاد کا قاصد پیغام لاتا رہا کہ آپ یزید کی بیعت کر لیں۔یزید آپ کے قدموں میں دولت کا ڈھیر لگا دے گا یہ باںٔیس ہزار کا لشکر آپ کے قدم چومے گا۔
غرض یہ کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو طرح،طرح کی لالچ دی گیٔ اور دھمکیوں سے خوف زدہ کیا گیا ۔اگر آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو ہو سکتا تھا کہ اس فریب میں آجاتا ،حوصلے ٹوٹ کر بکھر جاتے، دہشت اور خوف سے گھبرا کر ان ظالموں کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو جاتا۔ مگر امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی استقامت تو دیکھیٔے امام پاک یہی جواب دیتے رہے کہ میں ایسے مقام پر کھڑا ہوں جہاں سے دو راستے نکلتے ہیں۔
ایک راستہ تو یہ ہے کہ میں یزید پلید کی بیعت کرلوں تو یہ صحیح ہے کہ مجھے بظاہر عزت و دولت ضرور مل جائے گی ۔لیکن اس کا انجام یہ ہوگا کہ میرا پاک ہاتھ یزید کے ناپاک ہاتھ میں جاتے ہی اسلام کی بنیاد جس کو میرے نانا جان ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خون سے مضبوط و مستحکم کیا ہےاس کا پرچم سرنگوں ہو جائے گا۔
اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ میں یزید ناپاک کی بیعت کسی حال میں نہ کروں گا یہ صحیح ہے کہ میں قتل کیا جاؤں گا اور میری اہل بیت کو بےپناہ مشکلوں اور جان و مال کے نقصان سے گزرنا پڑے گا،ان کا خون بہایا جاۓ گا لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلام کا پرچم ہمیشہ کے لیے سر بلند رہے گا۔آپ کا آخری فیصلہ یہی تھا کہ ہم خود زخم کھا لیں گےاور گھوڑے سے زمین پر گر جاںٔیں گے مگر اسلام کے پرچم کوگرنے نہیں دیں گے۔
چنانچہ کربلا کا ذرہ ذرہ گواہ ہے کہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لال نے دنیا کی دولت کو ٹھوکر مار کر راہ حق میں آنے والی تمام مصیبتوں کا خوش ہو کر استقبال کیا اور قتل ہونا اور گھر لٹانا سب کچھ گوارہ کیا مگر یزید ناپاک کی بیعت نہ کرکے اسلام کے پاک دامن کو داغ دار ہونے سے ہمیشہ کے لیے بچا لیا۔
گھرلٹانا سرکٹانا کوئی تجھ سےسیکھ لے
جانِ عالم ہو فدا اے خاندان اہل بیت
اے ایمان والو! صبر کسے کہتے ہیں؟ اس کے بارے میں کہنے والوں نے بہت کچھ کہا ہے : واویلا نہ کرنا ناشکری کے کلمات کہنا وغیرہ۔لیکن صبر کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ صابر وہ ہے جس کے معمول عبادت میں فرق نہ آئے۔
تو صبر کے اس آںٔینہ میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھیں، اکہتّر لاشیں پڑی ہیں،اپنا بدن زخموں سے چور ہے،کچھ نیزے بدن میں ٹوٹ گیٔے اور گھوڑے کی زین سے فرش زمین پر آۓ مگر صابر ایسا ہے کہ عبادت کا وقت آگیا اور سجدہ قضا نہیں ہوا،تلاوت بھی قضا نہیں ہوںٔی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سر نیزے کی نوک پر ہے اور لبوں پر قرآن جاری ہے۔
محترم قارئین
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صبر و استقامت کا سلیقہ سیکھا جاسکتا ہے اور اپنی زندگی میں اس سے چراغاں کیا جا سکتا ہے۔ بیشک امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ صبر و استقامت و رضا کے دل دوز اور سخت ترین امتحان میں کامیاب ہوئے اور قیامت تک کے صابروں کے امام ہوگیٔے۔
اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کے صدقے بالخصوص شہدائے کربلا کے صدقے امت مسلمہ کو صبرو استقامت عطا فرمائے ۔آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الامین ﷺ
