دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

حسینی اور وقتِ آزمائش (میں حسینی ہوں قسط: سوم)

عنوان: حسینی اور وقتِ آزمائش (میں حسینی ہوں: قسط: سوم)
تحریر: المیرا قادریہ رضویہ
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

دنیا کی زندگی میں ہر انسان کا کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طرح کوئی مصیبت یا آزمائش کا وقت ضرور آتا ہے، چاہے وہ کیسا ہی عظیم المرتبت ہو۔ پھر کوئی مصیبت اور پریشانی سے گھبرا کر شکوہ و ناشکری کرکے صبر کے ثواب سے بھی محروم رہ جاتا ہے اور زندگی میں ناکام ہو جاتا ہے اور کوئی اس مصیبت کو ذریعۂ قرب سمجھ کر صبر و شکر گزار بن کر کامیابی کی منزل حاصل لیتا ہے۔

پھر جیسا صبر اور رضا کا سبق معرکۂ کربلا میں ملتا ہے، اس کی نظیر تاریخ کے کسی بھی موقعے پر نہیں ملتی۔امام عالی مقام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے صبر و رضا کی وہ مثال دنیا کو پیش کی جس کے سامنے ہر مصیبت زدہ شکوہ کرنے کا بہانہ ڈھونڈنے سے عاجز رہ جاتا ہے۔

آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو پہلے درخواست نامے بھیج کر کوفہ والوں نے بلایا اور جب وہاں پہنچے تو بے وفائی کر دی اور ان مسافروں کو جنگ کرنے پر آمادہ کر دیا۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی عظمت و شان سے کون بے خبر ہے پھر بھی کربلا کے دن ایسی ایسی گستاخیاں ان بدبختونی انجام دی کہ ان الفاظ کو لکھنے سے ہاتھ کانپ جاتے ہیں۔

صرف زبان سے دھوکہ دہی، طعنہ زنی اور گستاخی پر بس نہیں کیا بلکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی آنکھوں کے سامنے ان کہ شہزادوں کو بے رحمی کے ساتھ شہید کیا گیا، پانی تک بند کر دیا گیا، تین دن کے بھوکے پیاسوں 72 کہ سامنے 22 ہزار کا لشکر کھڑا کر دیا گیا، ظلم کی حد کر دی، چھ ماہ کے علی اصغر کو بھی شہادت کے گھاٹ اتارا گیا، لیکن پھر بھی امام عالی مقام رضی اللہ تعالی عنہ کی زبان پر حرف شکوہ نہ آیا، نہ کوئی فریاد، نہ کوئی شکایت صرف حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔

اب ہم جو خود کو سینہ تان کر حسینی کہتے ہیں جب ہم پر کوئی مصیبت پریشانی آتی ہے یا کوئی غم طاری ہوتا ہے تو ہمارے صبر کا حال کیا ہوتا ہے؟ کیا ہم بھی اس صبر کے راستے پر ہوتے ہیں جس پر ہمارے امام چلے؟ اگر بوقت مصیبت ہماری زبان پر شکوہ و ناشکری کے کلمات جاری ہوتے ہیں، تو کیا خود کو ان کا عقیدت مند کہنا درست ہوگا؟ کیونکہ ایک محب تو ہر حال میں وہی راہ اختیار کرتا ہے جس راہ پر اس کا محبوب چلتا ہو چاہے وہ راہ کتنی ہی کٹھن کیوں نہ ہو۔

امام حسین کا سچا محب تو وہ ہے کہ دل غم سے ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہو لیکن چہرے پر مسکراہٹ مہکتی رہی ہو اور زندگی میں چاہے پریشانیوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہوں لیکن اس کی زبان پر ہمیشہ شکر کا جملہ سجا ہوا ہوتا ہے۔

اگر اس کے پاس سے اس کا سب کچھ چھین لیا جائے پھر بھی وہ خود کو سب سے بڑا امیر کہتا ہے، کیوں کہ وہ اپنی دولت اپنے ایمان کو سمجھتا ہے۔ یقیناً حقیقی دولت تو ایمان ہی ہے، جس کے ذریعے دنیا و آخرت کی کامیابی خریدی جا سکتی ہے۔ کیونکہ صبر وہ وصف ہے کہ اس کے حامل کے ساتھ دو جہانوں کا مالک ہے۔ آپ نے قرآن میں نہیں پڑھا :

اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(153) (البقرۃ: 153)

ترجمہ کنزالایمان: بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔

اور یہی وجہ تھی کہ آخری دم تک امام عالی مقام رضی اللہ تعالی عنہ نہ ہمت ہارے اور نہ مایوس ہوئے کیونکہ ان کو سب سے بڑی طاقت رکھنے والے رب العالمین کا ساتھ ملا۔ اگر آپ بھی رب کی معیت چاہتے ہیں تو آپ کو بھی صبر کا دامن تھامنا پڑے گا۔

آج میرا ان تمام سے سوال ہے جو حسینی ہونے کا اعلان کرتے ہیں: کیا تم نے اپنے کردار کو حسینیت میں ڈھالا یا صرف زبان سے دعویٰ کرتے پھرتے ہو؟ تم حسینی ہو تو تمہارا صبر اس بات کا اعلان کرتا ہوا نظر آنا چاہیے۔

لہذا آئیے ہم سب یہ عہد کرتے ہیں کہ ہماری زبان نہیں ہمارا صبر دنیا کو بتائے گا کہ ہم سچے حسینی ہیں۔ ہم ہمارے سراپا کو ایسا بنائیں گے کہ ہمیں کہنے کی ضرورت نہ پڑے دیکھنے والا دیکھ کر سمجھ جائے کہ یہ کوئی حسینی جا رہا ہے۔

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔