عنوان: | حسینی اور دشمنوں سے سلوک (میں حسینی ہوں: قسط: ششم) |
---|---|
تحریر: | مریدہ مفتی اعظم کَچھ (بنت عثمان ہنگورہ) |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
حسینی رنگ میں دشمن کے ساتھ خیر خواہی کا کردار ایک عظیم مقام رکھتا ہے، کیونکہ اصل حسینی کی یہ روشن پہچان ہے کہ دشمن سامنے کھڑا ہو اور اس وقت ایک انسان اس سے کیا سلوک کرتا ہے۔ یہ ہمیں اس شخص کے باطن کی حقیقت دکھاتا ہے۔
کربلا میں نیزے چلے، تیر اُڑے، جسموں کو کاٹا گیا، چھ ماہ کے بچے کو بھی بخشا نہ گیا۔ لیکن کربلا کی فضاؤں میں ایک آواز کبھی بلند نہ ہوئی: نہ گالی، نہ بددعا، نہ انتقام کی للکار۔ کیوں؟
کیوں کہ وہاں صرف تلوار کا مقابلہ نہیں تھا، وہاں کردار کا معرکہ تھا۔ وہاں امام حسین رضی اللہ عنہ دشمنوں کے سامنے صرف خیمے نہیں بچا رہے تھے، بلکہ اخلاقِ نبوی ﷺ کی لاج بھی بچا رہے تھے۔
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے جب یزیدی لشکر کے سامنے خطبہ دیا، تو کیا اُن کی زبان سے بددعاؤں کی بو آتی تھی؟ نہیں! اُن کی زبان سے صرف خیر خواہی، اصلاح، اور اللہ کی طرف بلانے کا پیغام تھا۔
جب حر بن یزید جیسے دشمن تائب ہو کر آئے، تو امام عالی مقام نے اُسے سینے سے لگایا۔ نہ طعنہ دیا، نہ جھڑکا۔ بلکہ ایسے قبول کیا جیسے سگا بھائی ہو۔ امام عالی مقام رضی اللہ تعالی عنہ نے ہر پل دشمنوں کے لیے بھی خیر چاہی اور ہر کوشش کی ان یزیدیوں کو ہلاکت سے بچانے کے لیے۔
ہم خود کو حسینی کہتے ہیں، لیکن ذرا سا کوئی مخالفت کرے، تنقید کرے، اختلاف کرے۔ تو ہم اُس کی عزت خاک میں ملا دیتے ہیں، بددعا، غیبت، کینہ، جھگڑا، تہمت اور نفرت کا طوفان برپا کر دیتے ہیں۔ یہ کیسی حسینیت ہے؟
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے دشمن کھڑے تھے، تلواریں لیے، ظلم پر آمادہ، خون کے پیاسے۔ مگر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا دل غصے سے نہیں، رحم سے بھرا ہوا تھا۔ جب امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے آخری لمحوں میں بھی اپنے قاتلوں کے لیے بددعا نہ کی، تو آج ہم کس دلیل سے دشمنی کو ذاتی نفرتوں اور کینے کی بنیاد بنائیں؟
قرآنِ مجید کا اعلان:
وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُؕ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ
ترجمہ کنزالایمان : اور نیکی اور بدی برابر نہ ہوجائیں گی اے سننے والے برائی کو بھلائی سے ٹال جبھی وہ کہ تجھ میں اور اس میں دشمنی تھی ایسا ہوجائے گا جیسا کہ گہرا دوست۔
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے برائی کا جواب بھی بھلائی سے دیا اور یہی حسینی طرزِ عمل ہے۔
لہٰذا
سچا حسینی
وہی ہے:
جو دشمن کے لیے بھی خیر کی دعا کرے،
جس کی زبان شریر کے لیے بھی شریف ہو،
جو اختلاف کے باوجود کردار میں بلندی رکھے
اور
جو انتقام کی جگہ اصلاح کو ترجیح دے۔
اے حسینیو ! اپنے ضمیر کو جگاؤ اور امام حسین مجتبیٰ رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت کو اپناؤ۔ کیونکہ ہم صرف ماتم کے وارث نہیں، ہم کردارِ حسین کے پیروکار ہیں!
ہمارا ہر عمل یہ گواہی دیتا نظر آنا چاہیئے کہ میں حسینی ہوں۔