عنوان: | حضور مفتی اعظم ہند کا عشق رسول ﷺ |
---|---|
تحریر: | بنت اسلم برکاتی |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
حضور مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ جہاں دیگر اوصافِ جلیلہ کے خوگر تھے، وہیں ایک مومن کی سب سے عظیم دولت عشقِ رسول میں بھی اپنا الگ ہی مقام رکھتے تھے۔ آپ کی ذات تو وہ تھی کہ جس کی بدولت لاکھوں لوگوں کو عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی لازوال دولت نصیب ہوئی، اور آج بھی لوگوں میں اپنے کردار اور اشعار کے ذریعے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار کر رہے ہیں۔ سامانِ بخشش میں فرماتے ہیں:
جانے ایماں ہے محبت تیری جانِ جاناں
جس کے دل میں یہ نہیں خاکِ مسلماں ہوگا
محبت تمہاری ہے ایمان کی جاں
اگر یہ نہیں ہے تو ایمان ہوا ہے
آپ کے عشقِ رسول کے متعلق مفتی عابد حسین مصباحی نوری لکھتے ہیں: مفتی اعظم ہند کے عشق اور محبتِ رسول کا یہ عالم ہوتا کہ بالکل باادب اور مہذب ہو کر جب تک نعت پڑھی جاتی، دو زانو یا ایک پاؤں اٹھا کر یکسوئی (توجہ) کے ساتھ بیٹھے رہتے اور وارفتگیِ شوق اس قدر بڑھ جاتی کہ اشکوں کے موتی روکے نہیں رکتے۔
اب آئیے حقیقت بیانی عاشقوں کے زبانی سنیے
حضرت فیض العارفین شاہ صوفی منور حسین بدایونی قدس سرہ فرماتے ہیں: میں نے 25 مرتبہ حضور اعلیٰ حضرت بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی بریلی جا کر زیارت کی اور بڑی کثرت سے بریلی شریف جا کر حضرت حجۃ الاسلام بریلوی اور حضور مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہما سے ملاقات کا شرف حاصل کرتا تھا۔ کبھی کبھی شب میں محلہ سوداگران رک جاتا تھا اور بعد نمازِ عشاء حضور مفتی اعظم ہند قبلہ کی موجودگی میں نعت گوئی کا جو دَور چلتا، وہ دیدنی (دیکھنے) سے تعلق رکھتا تھا۔
حضور مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ نعت سن کر اس قدر تصورِ محبوب میں مستغرق ہو جاتے تھے کہ آپ کو خود اپنا ہوش نہیں رہتا تھا اور اشکوں کے موتی نورانی چہرے پر اس قدر نچھاور ہوتے نظر آتے تھے کہ ہم لوگ، یعنی سامعین، پر ایک سکتہ طاری ہو جاتا تھا۔ کبھی کبھی حضرت قبلہ خود بھی تحت اللفظ میں اعلیٰ حضرت کے اور اپنے اشعار سنایا کرتے تھے۔ جب کبھی حضور مفتی اعظم ہند قبلہ اعلیٰ حضرت قبلہ کا یہ شعر سناتے تھے تو اس وقت کا عالم کچھ نہ پوچھو۔ وہ شعر یہ ہے:
حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا
ارے سر کا موقع ہے او جانے والے
جانشینِ مفتی اعظم ہند، حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان ازہری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: سیدی مفتی اعظم حضرت علامہ مولانا مفتی مصطفی رضا قدس سرہ رضائے مصطفی تھے۔ اور جو عظمت انہیں حاصل ہوئی، وہ محبتِ رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بنا پر، اور بلا شبہ عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہی جانِ ایمان ہے۔ حضرت مفتی اعظم کی سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عشق میں فناء کا شاہد ان کی زندگی کا لمحہ لمحہ ہے۔ محبتِ رسول میں ان کا فناء ہو جانا اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ آخر عمر میں باوجود شدید علالت کے نعت کی محفل میں گھنٹوں باادب بیٹھے رہتے تھے اور نعتِ پاک کے ہر مصرع پر رونا اور والہانہ کیفیت کا طاری ہونا اس بات کا غماز (اشارہ دے رہا ہے) تھا کہ وہ مصطفیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت میں گم ہو چکے تھے۔
سفرِ حج میں جب آپ غارِ ثور کی زیارت کے بعد غارِ حرا کے پاس پہنچے تو اپنا عمامہ مبارکہ، جبہ، صدری کُرتا سب اتار کر زمین پر رکھ دیا۔ اس وقت سوزشِ عشق سے آپ کا قلب تپ رہا تھا اور آنکھوں سے اشک رواں تھے، غار کے اندر تشریف لے گئے اور اس کی پاک مٹی بدن پر ملنے لگے اور اس کے ذرّات سے اپنی پیشانی کو اس طرح چمکایا کہ کہکشاں کا جمال، آفتاب کی شعاعیں اور ماہتاب کی درخشانی بھی اس کی تابانیوں پر قربان ہونے لگیں۔ اور جب مواجہِ اقدس میں صلوٰۃ و سلام پیش کرنے کی سعادت نصیب ہوئی تو حرمِ شریف کے خادم سے جھاڑو لے کر درود شریف پڑھتے ہوئے اس مبارک سرزمین کو بُہارا (جھاڑو لگانے کی سعادت حاصل کی)۔ اس وقت آپ کا جذبۂ عشق اور کیف و سرور بیان سے باہر ہے۔ ایک مدت سے خوابیدہ آرزو آج بیدار ہو چکی تھی، دل میں مسرت کی کلیاں کھل اٹھیں اور مرادیں بر آئیں، جنہیں آپ نے اپنی نعتِ پاک میں نظم فرمایا ہے:
خدا خیر سے لائے وہ دن بھی نوری
مدینے کی گلیاں بُہارا کروں میں (ماخذ: مفتی اعظم کی استقامت و کرامت، صفحہ نمبر 157)
اللہ کریم ہمیں عرسِ مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ کے موقع پر، اُن کے عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صدقہ عطا فرمائے اور اُن کے فیوض و برکات سے مالامال فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!