| عنوان: | نظر کی حفاظت دل کی پاکیزگی |
|---|---|
| تحریر: | سفینہ الحفیظ |
| پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان میں سب سے قیمتی نعمت نظر یعنی آنکھ ہے، جو دیکھنے کے لیے عطا کی گئی ہے۔ اسی لیے اسلام نے اس نعمت کے استعمال کے آداب بھی سکھائے ہیں۔ اگر انسان اپنی نظر کو آوارہ چھوڑ دے تو یہ آنکھ اس کے دل کو برباد کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں اس تعلق کی وضاحت بار بار کی گئی ہے کہ انسان کی نظر کا اثر اس کے دل اور روح تک پہنچتا ہے۔
تاجر کبھی اپنا قیمتی سامان کوڑے دان میں نہیں پھینکتا۔ تو ہم کیسے گمان کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنا دین اور اپنی محبت ان دلوں میں رکھے گا جو گناہ کی میل سے بھر جائیں؟ دل کو جو سب سے زیادہ چیز خراب کرتی ہے وہ انسان کی بے قابو نظر ہے۔
جو ہم دیکھتے ہیں، وہ سیدھا ہمارے دل میں اتر جاتا ہے۔ نظر دل کی کھڑکی ہے۔ اگر یہ کھڑکی کھلی چھوڑ دی جائے تو گناہوں کے فتنے اندر آکر ہمارے دل کو بیمار کر دیتے ہیں۔ نظر کی آوارگی دل کے ساتھ وہی سلوک کرتی ہے جو کمان سے نکلا ہوا تیر کرتا ہے۔ یہ اگر دل کو مردہ نہ کرے تو زخمی ضرور کردیتی ہے۔نظر میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ آنکھ جو دیکھتی ہے، وہ صرف آنکھ میں نہیں رہتی بلکہ سیدھا ہمارے دل اور سوچ میں اُتر جاتی ہے اور گہرے اثرات چھوڑتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْؕ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ (النور: ۳۶)
ترجمہ کنز الایمان: مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے بہت ستھرا ہے بیشک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا:
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (الإسراء: ۳۶)
ترجمہ کنز الایمان اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ عَلَى ٱبْنِ آدَمَ نَصِيبَهُۥ مِنَ ٱلزِّنَىٰ، أَدْرَكَ ذَٰلِكَ لَا مَحَالَةَ، فَزِنَى ٱلْعَيْنَيْنِ ٱلنَّظَرُ (البخاری: ص۲۳۱)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے آدم کے بیٹے پر اس کا حصہ لکھ دیا ہے، اس سے بچنا ممکن نہیں۔ پس آنکھوں کا زنا بدنگاہی نظر ہے۔
ہم جو کچھ دیکھتے ہیں، واقعی وہ سیدھا ہمارے دل اور روح میں اتر جاتا ہے۔ یہی چیزیں دھیرے دھیرے ہمارے اندر اتنی گہرائی تک چلی جاتی ہیں کہ ہمیں خود بھی اس کا اندازہ نہیں ہوتا۔ ہم آہستہ آہستہ اللہ پاک سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں، اور یہ دوری ہمیں اسی وقت شدت سے محسوس ہوتی ہے جب ہم نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔
اس وقت ہمارا سر تو جھک جاتا ہے، لیکن ہمارا دل اللہ کی طرف نہیں جھکتا۔ زبان سے ہم اللہ کے کلمات پڑھتے ہیں، لیکن دل غفلت اور بے چینی میں بھٹکتا رہتا ہے۔ تب احساس ہوتا ہے کہ ہم اپنی نظروں سے دیکھ دیکھ کر اپنے دل اور روح کو کتنا خراب کر چکے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہم صرف دیکھ رہے ہیں، کچھ کر تو نہیں رہے، لیکن یہی دیکھنا آہستہ آہستہ ہمارے ایمان، عبادت اور ذکر کی کیفیت کو کھو دیتا ہے۔ یہ نگاہ کی لذت وقتی ہوتی ہے، مگر نقصان دیرپا ہوتا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی نگاہوں کی پوری سچائی سے حفاظت کریں، کیونکہ جو دل نگاہ کے ذریعے گناہوں سے بھر جائے، اس میں اللہ کی محبت اور ذکر کیسے ٹھہر سکتا ہے؟
اللہ تعالیٰ ہمیں نگاہوں، دلوں اور روحوں کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے جن کے دل اللہ کی یاد سے منور ہوتے ہیں اور جو اپنی نگاہوں کی حفاظت کر کے اللہ کی رضا حاصل کرتے ہیں۔ آمین یا رب العالمین۔
