| عنوان: | عالمہ ایک بیوی کی حیثیت سے |
|---|---|
| تحریر: | کنیز تاج الشریعہ مصباح رضویہ |
| پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
ہمارے معاشرے میں تلاشِ رشتہ کے وقت عموماً ظاہری اور مادِّی چیزوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جبکہ دین داری، شرافت اور اچھے اَخلاق جیسی خوبیوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے جو اِزدِواجی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ غالباً اسی لئے معاشرے میں طلاق دینے کا رجحان دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔یاد رکھئے! جب تک انسان کا باطِن خوبصورت نہ ہو ظاہری خوبصورتی کسی کام کی نہیں۔
کامیاب گھریلوزندگی کے لئے رشتوں کی تلاش میں کچھ احتیاطیں ضروری ہیں ورنہ زندگی بے سکونی اورالجھنوں کا شکار ہوکر رَہ جائے گی ۔ فی زمانہ رشتہ تلاش کرنے میں کئی غلط انداز اختیار کئے جاتے ہیں،عام طور پر لڑکے والوں کی تمنا یہ ہوتی ہے: کہ لڑکی خوبصورت ہو، والدین کی اکلوتی بیٹی ہو، دنیاوی ڈگریوں سے آراستہ ہو۔
لڑکی کسی اچھی جگہ نوکری کرتی ہو، زیادہ جائیداد کی مالکن ہو تاکہ گھر والے اپنے داماد کو کار، گاڑی، گھر، مزید مہنگی چیزیں بطورِ تحائف پیش کرتے رہیںغالباً اسی لیے بارہا لوگوں کویہ کہتے سُنا جاتا ہے: اچھے رشتے نہیں ملتے۔ ایسے لوگوں سے ایک سوال ہے کہ اچھے رشتے کا معیار کیا ہے؟
وہ جو ہمارا خود ساخْتہ ہے یا وہ جسے شریعت نے اچھا رشتہ قرار دیا۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر باپ اپنی بیٹی کے لئے اچھے لڑکے کا انتخاب کرنا چاہتا ہے اور لڑکے والے بھی اچھے رشتے کی تلاش میں ہوتے ہیں لیکن یہ بات ہر مسلمان کو پیشِ نظر رکھنی چاہئے کہ اچھا رشتہ وہی ہے جو اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول صلی اللہُ تعالٰی علیہ والہٖ وسلم کے نزدیک اچھا ہے۔
لہٰذادین دار اور ضروری تقاضوں کو پورا کرنے والا رشتہ ملتا ہو تو اسے ٹھکرانے کی بجائے اپنانے کا ذہن ہونا چاہئے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : عورت سے نکاح چار باتوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے: مال، حسب نسب،حُسن وجمال اور دِین مگر تم دِین والی کو ترجیح دو،جس نے حسب نسب دیکھ کر نکاح کیا تو اللہ تبارک و تعالی اسے بروز حشر غریب کر دے گا، اور جس نے حسن و جمال کو دیکھا تو اللہ تبارک و تعالی اس سے قیامت کے دن بد صورت کر دے گا، اور جس نے دین دار عورت سے نکاح کیا اس کی دینداری کی وجہ تو اللہ تبارک و تعالی اس دنیا میں بھی عزت بخشے گا اور اخرت میں بھی (بخاری:429)
معاشرے کے حالات
آج کل لوگ دنیاوی زندگی میں اتنے منہمک ہو چکے ہیں کے انہیں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے خلاف لڑکی چاہئے۔ آج کل معاشرے میں یہ دور بھی آچکا ہی کہ عالمہ کے مقابلے میں نوکری والی لڑکی کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے، دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والی لڑکی کو زیادہ ترجیح دی جاتی، کالج پڑھنے والی کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔
مگر شریعت مطھرہ کے نزدیک سب سے بہترین لڑکی اور سب سے بہترین بیوی وہی ہے جو دین اسلام کو گہرائی سے جانتی ہو، جو شریعت کی پابندی ہو، پردے دار خاتون ہو اور آج کے دور میں صرف عالمات دین ہی ہیں جو صوم و صلوٰۃ اور پردے کے پابند ہیں۔
عالمہ سے نکاح کے فوائد
عالمہ آپ کو دین کے بارے میں درست معلومات فراہم کر سکتی ہے اور آپ کو صحیح راستے پر چلنے میں مدد کر سکتی ہے۔
معاشرتی ذمہ داریوں میں مدد
عالمہ آپ کو معاشرتی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور نبھانے میں مدد کر سکتی ہے۔ ایک عالمہ بیوی اپنے بچوں کی بہتر تربیت کر سکتی ہے کیونکہ وہ دین اور اخلاق سے واقف ہوتی ہے۔ عالمہ گھریلو معاملات میں بھی آپ کی مدد کر سکتی ہے اور گھر کو خوشحال بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
معاشرے میں ایک اچھا کردار
ایک عالمہ بیوی معاشرے میں ایک اچھا کردار ادا کر سکتی ہے اور دوسروں کو بھی نیکی کی ترغیب دے سکتی ہے۔ تاہم، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ شادی کے لیے کسی فرد کی اہلیت کا تعین صرف اس کی علمی حیثیت سے نہیں کیا جا سکتا۔ اخلاق، کردار اور دیگر ذاتی خوبیوں کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
عالمات سیرت صحابیات کو اپناتی ہیں
جو صالح عورت ہو اور عالمہ بھی ہو تو یہ سب سے بہتر خاتون ہیں کیوں کہ عالمات دین سیرت صحابیات کو اپناتی ہیں، کردارِ فاطمی کو اپناتی ہیں، آج کے ایسے فتنہ ارتداد کے دور میں بھی پردے کی پابند ہوا کرتی ہیں، صحابیات اور ازواجِ مطہرات اُنکی رول ماڈل ہوتے ہیں جن کے نقش قدم پر وہ چلنا چاہتی ہیں، اگر کردارِ فاطمی پر عمل کرنے والی عالمات سے نکاح جائے تو زوجین اگر ایک دوسرے کے حقوق خوش دلی سے پور ے کرنے لگیں گے۔
اور بہت سی خرابیوں کا خاتمہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارا معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گا۔ اسلام نے اپنی عمدہ اور اعلیٰ تعلیمات میں ہر طرح کے حقوق میں عورتوں کو شریک کیا ۔اسے کسی جائز حق سے محروم نہیں رکھا۔ بیوی کے حقوق و فرائض متعین کئے۔ اور عورت کو شوہر کا مرتبہ سمجھا دیا گیا یہ تمام چیزیں ایک لڑکی عالمہ ہونے کی حیثیت سے جانے گی اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے گی۔
صالح بیوی کے صفات
صالح بیوی کی صفات میں قرآن مجید کی یہ آیت (جو سورۂ نساء میں ہے) بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے پہلے تو مرد کی قوّامیت حاکمیت و بالا دستی بیان فرمائی جس سے از خود یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گھر کا نظام امن وسکون کے ساتھ تب ہی چل سکتا ہے جب اس گھر میں آنے والی عورت (بیوی) خاوند کی بالا دستی کو تسلیم کرے گی، اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ (النساء34)
ترجمہ کنز الایمان: نیک عورت فرماں بردار ہوتی ہے (اپنے رب کی بھی اور اپنے خاوند کی بھی) پوشیدہ باتوں کی حفاظت کرتی ہے بہ سبب اس کے کہ اللہ نے اس کی بھی حفاظت فرمائی ہے۔
اس میں نیک عورت کی فرماں برداری اور پوشیدہ معاملات کی حفاظت اور اس کی غیر موجودگی میں اس کے مال، اس کے گھر اور اپنی عصمت کی حفاظت جیسی صفات کو مرد کی قوامیت کا نتیجہ بتلایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو عورت مرد کی اس فطری بالا دستی کو تسلیم نہیں کرے گی، وہ نیکی اور فرماں برداری کے تقاضے بھی پورے نہیں کر سکے گی جب کہ ان تقاضوں کی ادائیگی ہی پر گھر کے امن و سکون کا انحصار ہے۔
غیبی معاملات کی حفاظت کا سبب اللہ نے یہ بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے حقوق بھی محفوظ کر دیے ہیں اور وہ اس طرح کہ مرد کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ عورت کو حق مہر دے، اس کے نان نفقہ اور رہائش کا انتظام کرے اور اس کی دیگر ضروریات پوری کرے۔
اس قسم کی صالحہ اور قانتہ عورت کے ساتھ مرد کی زندگی نہایت خوش گوار گزرتی ہے اور حالات و معاملات میں کوئی کشیدگی اور تنائو پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ جو عورت ان صفات سے محروم ہوگی تو اس کے اندر ان صفات کے بر عکس نشوز پیدا ہوگا جو مرد و عورت کے تعلقات کو نا خوشگوار بنائے رکھے گا۔
ان تمام آیتوں اور احادیث کی جانکاری عالمات کو ہوتی ہے تو وہ شریعت کے مطابق بہتر سے بہتر اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرتی ہیں عالمہ عورت جب بیوی بنتی ہے تو شوہر کے تمام حقوق کو ادا کرتی ہے، عالمہ اور اخلاق حسنہ کی ملکہ جب بیوی بنتی ہے تو ساس سسر کی خدمات بھی بخوبی انجام دیتی ہے، عالمہ عورت جب بیوی بنتی ہے تو اپنے بچوں کی تربیت بھی دینی طریقے سے کرتی ہے۔
عالمات سے نکاح کرنے کے بےشمار فوائد ہیں سب سے بڑا یہ فائدہ کے دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی سوار جاتی ہے اللہ تبارک وتعالیٰ تمام خواتین اسلام کو دینی سانچوں میں ڈھالنے اور اپنےاپنے حقوق پابندی سے بجالانے کی توفیق عطا فرمائے۔
بازاروں اور شہروں میں ان کی کھلے عام خرید و فروخت ہوتی تھی۔ انہیں کسی چیز یہاں تک کے اپنے ذاتی معاملات میں بھی کسی قسم کا کوئی اختیار حاصل نہ تھا۔ وہ ہر لحاظ سے مردوں کی دست نگرتھیں۔اسلام نے اپنی عمدہ اور اعلیٰ تعلیمات میں ہر طرح کے حقوق میں عورتوں کو شریک کیا ۔اسے کسی جائز حق سے محروم نہیں رکھا۔ شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا۔ میاں بیوی کے حقوق و فرائض متعین کئے۔
شادی کے بعدزندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے ، اسے پُرسکون اور خوشحال بنانے میں میاں بیوی دونوں کا کردار اہم ہے ،چنانچہ انہیں ایک دوسرے کا خیرخواہ، ہمدرد،سُخن فہم(یعنی بات کو سمجھنے والا)،مزاج آشنا(مزاج کو جاننے والا)، غم گساراور دلجوئی کرنے والا ہونا چاہئے۔ کسی ایک کی سُسْتی و لاپرواہی اور نادانی گھرکا سکون برباد کرسکتی ہے۔
شوہر حاکم ہوتا ہے اوربیوی محکوم ،اس کے اُلٹ کا خیال بھی کبھی دل میں نہ لائیے، لہٰذا جائز کاموں میں شوہرکی اطاعت کرنا بیوی کو شوہر کی نظروں میں عزت بھی بخشے گا اور وہ آخرت میں انعام کی بھی حقدار ہوگی۔
شوہر کے حقوق اور بیوی کی ذمےداریاں
انسانوں کے باہمی تعلقات میں جو تعلق سب سے خاص نوعیت اور اہمیت کا حامل ہے۔ وہ ہے ازدواجی تعلق۔ شوہر اور بیوی کا رشتہ۔ اگر یہ کہا جائے کہ زندگی کا سکون اور دلی اطمینان بڑی حد تک اس رشتے سے وابستہ ہے۔ تو غلط نہ ہو گا۔ ایک مرد اور عورت جب شادی کے بندھن میں بندھتے ہیں تو شریعت کی رو سے اسی وقت شوہر پر بیوی اور بیوی پر شوہر کے حقوق عائد ہو جاتے ہیں۔ ایک بیوی پر شوہر کے حقوق بہت سے ہیں۔ جن کا ہم تھوڑا سا تذکرہ کریں گے۔
جسمانی و طبعی حقوق
اسلام نے مرد و عورت کا فطری توازن قائم کیا۔ کسی پر بے جا ذمہ داری نہیں ڈالی۔ اور دونوں کے حقوق و فرائض کی تقسیم کی۔ ایک شوہر کے جسمانی اور طبعی حقوق پورے کرنا اس کی بیوی کا فرض ہے۔
اطاعت و محبت
بیوی کے لیے لازم ہے کہ اپنے خاوند سے محبت میں مخلص ہو۔ بیوی پراس کے شوہر کے حقوق بہت زیادہ ہیں۔ جن کی ادائیگی شکر سے وہ عاجز ہے۔ بیوی پر اپنے شوہر کی اطاعت اور فرمانبرداری واجب ہے۔
شوہر کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بیوی کو اس کے والدین سے ملنے سے روک دے۔ اور قطع تعلق کرادے۔ لیکن حدیثوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر شوہر بیوی کو کسی بات سے منع کردے تو بیوی پر اس کی بات کا ماننا لازم ہے۔ یہاں بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر شوہر بیوی کو اس کے والدین سے ملنے سے منع کرے۔ اور بیوی اس کی اجازت کے بغیر ان سے مل لے۔ تو اس صورت میں شرعاً بیوی شوہر کی نافرمان نہیں کہلائے گی۔
شوہر کی بالاتری
اللہ تعالی نے مرد کوعورت پرحاکم مقررکیا ہے۔ شوہر کے ذمہ بیوی کا خیال رکھنا اور اس کی راہنمائی ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالی نے مرد کوکچھ جسمانی اورعقلی خصائص سے نوازا ہے۔ اوراس پر کچھ مالی امور بھی واجب کئے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے۔
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ (النساء:34)
ترجمہ کنز الایمان: مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔
شوہر کے احکامات کی اطاعت بیوی پر واجب ہے، لیکن یہ اطاعت حدود میں ہونی چاہیے۔ اگر شوہر کوئی ایسا حکم دے جو شریعت کے خلاف ہو، تو بیوی اس کی اطاعت کرنے کی پابند نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، اگر شوہر بیوی کو زکوٰۃ ادا کرنے سے روکے، جو کہ ایک مذہبی فریضہ ہے، تو بیوی اس حکم کی اطاعت نہیں کرے گی.
مزید یہ کہ، شوہر کے احکامات کی اطاعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بیوی اپنی ذاتی رائے یا فیصلے سے دستبردار ہو جائے۔ بلکہ، یہ ایک باہمی احترام اور سمجھ بوجھ پر مبنی رشتہ ہونا چاہیے، جس میں دونوں فریق ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں۔ شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کے ساتھ مشورہ کرے اور اس کی رائے کو بھی اہمیت دے، اور بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کے احکامات کو غور سے سنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔
امانت کی حفاظت
شوہر کا مکان، سامان، مال و متاع سب شوہر کی امانت ہیں۔ اور بیوی ان کی امین ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک بیوی اپنے خاوند کے اعتماد، عزت و عصمت اور اولاد کی محافظ بھی ہوتی ہے۔ اگر عورت جان بوجھ کر خاوند کا کوئی نقصان کرے تو اس کا مطلب اس نے خیانت کی۔
عورت کا سجنا سنورنا
بیوی کو اپنے شوہر کے لئے سجنا سنورنا اور اچھے لباس پہننے چاہیے۔ شریعت میں بیوی کو بننے سنورنے کا حکم تو اپنے شوہر کے لئے ہی ہے۔ بیوی اپنے شوہر کے لئے سجے گی اور اس کے علاوہ بیوی اپنے محرم رشتے داروں کے لیے بھی بن سنور سکتی ہے۔
شریعت کی رو سے پتہ چلتا ہے کہ بیوی کو اپنے شوہر کے لئے ہر وقت بن سنور کر رہنا چاہئے، اور خاص طور پراپنے بناؤ سنگھار کا اظہار اس وقت کرنا چاہیے جب شوہر کسی جگہ سے واپس آئے۔
مثلاً بیرون ملک سے، اپنے آفس سے، جب بھی شوہر گھر سے باہر ہو اور جب واپس آئے تو عورت کو بہت ہی پیار بھرے، مشفقانہ اور والہانہ انداز میں استقبال کرنا چاہیے، اچھا لباس پہن کر، بناؤ سنگھار، میک اپ کر کے، خوشبو لگا کر اچھی طرح بن سنور کر اپنے شوہر کا استقبال کرے تاکہ اس کا شوہر اس سے خوش ہو۔
جب بیوی ایسا کرے گی تو شوہر اس سے ہمیشہ خوش رہے گا اور کسی دوسری عورت کی طرف مائل نہیں ہو گا، اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو پھر دونوں کے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں، فتنہ فساد ہوتا ہے، مگر افسوس یہ ہے کہ آج کے معاشرے میں عورت جب باہر جانے لگتی ہے تو خوب بناؤ سنگھار کرتی ہے، میک اپ کرتی ہے، اور گھر کے اندر شوہر کے سامنے صحیح لباس بھی نہیں پہنتی ہیں جو کہ حرام ہے۔
شریعت نے عورت کو اپنے خاوند کے لیے سجنے سنورنے کی اجازت دی ہے، دوسروں کے لیے نہیں۔ مگر اسلامی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے ہمارے معاشرے کی خواتین اس کے برعکس چل رہی ہیں جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر عورت اور مرد کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے اپنے عملوں کو اس طرح ڈھالیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن جائیں۔ اس دنیا کے عارضی سامانوں کی بجائے اس بات پر نظر رکھنے والے ہوں کہ ہم نے اپنے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
