| عنوان: | پہلا سوال نماز |
|---|---|
| تحریر: | حبیب البشر مصباحی |
| پیش کش: | الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ |
دنیا ایک دارالامتحان ہے، اور ہر امتحان کا ایک نتیجہ ہوتا ہے۔ انسان کی زندگی کا اصل نتیجہ قیامت کے دن ظاہر ہوگا، جب انسان کے ایک ایک عضو اللہ کے حکم سے گواہی دیں گے۔ ہر لمحہ، ہر قدم، ہر قول و فعل کے بارے میں سوال ہوگا: تم نے اپنا وقت کہاں ضائع کیا؟ تمہارے قدم کہاں کہاں پڑے؟ تمہاری آنکھیں، زبان، ہاتھ، دل، سب نے کیا کیا؟
قیامت کا وہ ہولناک منظر کس سے پوشیدہ ہے؟ وہ دن جو پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا، سورج سوا نیزے کے فاصلے پر ہوگا، جو آگ برسا رہا ہوگا، زمین تانبے کی ہوگی جو اس گرمی کو مزید بڑھا دے گی۔ ہر شخص اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں ڈوبا ہوگا؛ کوئی ٹخنوں تک، کوئی گھٹنوں تک، کوئی کمر تک اور کوئی مکمل طور پر۔
اور اسی ہولناک دن کا پہلا سوال نماز کے متعلق ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنَّ أوَّلَ ما يُحاسَبُ به العبدُ يومَ القيامةِ من عملِه صلاتُه، فإن صلَحتْ فقد أفلحَ وأنجحَ، وإن فسدتْ فقد خابَ وخسرَ (سنن ترمذی: 413)
یعنی: قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر وہ درست ہوئی تو وہ کامیاب و کامران ہوگا، اور اگر خراب ہوئی تو وہ ناکام و نامراد ہوگا۔
ہاں، یہی نماز! جسے آج ہم نے پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ جسے سب سے مقدم رکھنا تھا، وہ آج سب سے مؤخر ہو گئی ہے۔ ہم اس سوال کا کیا جواب دیں گے؟ کیا یہ کہ ہمیں دنیا سے فرصت نہیں ملی؟ دوستوں کے ساتھ گھومنے، سوشل میڈیا، فضول باتوں اور لایعنی مشغلوں سے؟ نہیں! اس روز کوئی بہانہ کام نہیں آئے گا۔ ہمیں ہر اس لمحے کا جواب دینا ہوگا جو ہم نے اللہ کی یاد، اللہ کی عبادت اور نماز سے غفلت میں گزارا۔
نماز سے غفلت کے اسباب پر ایک نظر
جب ہم یہ جان چکے کہ قیامت کے دن سب سے پہلا سوال نماز کے متعلق ہوگا اور یہ کہ نماز دین کا ستون ہے، تو لازم ہے کہ ہم اس کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوتاہی نہ برتیں۔ لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے میں آج نماز کو نظر انداز کرنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ بیشتر افراد مختلف حیلے اور بہانے تراشتے ہیں تاکہ ضمیر کو مطمئن کر سکیں۔ یہ بہانے بظاہر مختلف لگتے ہیں، مگر حقیقت میں سب کی جڑ ایک ہی ہے: اللہ کے حکم سے غفلت اور دنیا کی محبت۔ آئیے ان عام مگر سنگین بہانوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں، تاکہ ہم خود کو پہچان سکیں، اور سدھار کی جانب پہلا قدم اٹھا سکیں:
وقت کی کمی
یہ آج کے دور کا سب سے عام بہانہ ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں نماز پڑھنے کا وقت نہیں ملتا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے دن رات کو پانچ نمازوں کے اوقات پر تقسیم کیا ہے۔ انسان دن بھر سوشل میڈیا، موبائل، محفلوں اور دیگر سرگرمیوں کے لیے گھنٹوں نکال لیتا ہے، مگر صرف 5 سے 7 منٹ کی نماز کے لیے وقت نہیں نکال پاتا۔ اصل مسئلہ وقت کی کمی نہیں بلکہ ترجیحات کی کمی ہے۔
دل نہ لگنا
بعض افراد کہتے ہیں کہ نماز میں دل نہیں لگتا، اس لیے نماز نہیں پڑھتے۔ درحقیقت، دل لگنا نماز کی شرط نہیں، بلکہ نماز کے ذریعے دل لگایا جاتا ہے۔ دل لگانے کے لیے توجہ، نرمی، اور پابندی کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی مسلسل نماز پڑھتا رہے تو رفتہ رفتہ اس کے دل میں خشوع اور سکون پیدا ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ان الصلاة تنهى عن الفحشاء والمنكر
بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔
گناہ گار ہونے کا عذر
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم گناہ گار ہیں، نماز پڑھنے کے لائق نہیں۔ یہ شیطانی وسوسہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ
(الزمر: 53)
اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔
نماز تو گناہوں سے پاک ہونے کا بہترین ذریعہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
اگر تمہارے دروازے پر ایک دریا ہو جس میں دن میں پانچ مرتبہ غسل کرو، تو کیا کوئی میل کچیل باقی رہ جائے گی؟ صحابہ نے کہا: نہیں یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا: یہی مثال پانچ وقت کی نمازوں کی ہے۔
معاشی مصروفیات
کچھ لوگ نماز چھوڑنے کا بہانہ یہ بناتے ہیں کہ کاروبار یا نوکری میں وقت نہیں ملتا۔ یاد رکھیں، نماز چھوڑ کر جو مال حاصل ہوتا ہے، اس میں نہ برکت ہوتی ہے اور نہ سکون۔ بلکہ نماز قائم کرنے سے اللہ تعالیٰ خود رزق میں برکت عطا کرتا ہے۔ قرآن میں فرمایا:
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۖ لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكَ
(طٰہٰ: 153)
اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس پر ثابت قدم رہو، ہم تم سے رزق نہیں مانگتے، ہم خود تمہیں رزق دیتے ہیں۔
سستی اور غفلت
نماز سے غفلت اکثر سستی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ انسان کہتا ہے ابھی پڑھ لوں گا، پھر پڑھ لوں گا، اور آخر میں وقت نکل جاتا ہے۔ یہی سستی اسے قیامت کے دن بڑی حسرت میں مبتلا کرے گی۔ قرآن میں ہے:
فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ ٭ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ
(الماعون: 5-4)
تباہی ہے ان نمازیوں کے لیے، جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔
نماز محض چند حرکات و سکنات کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ اور بندے کے درمیان ایک زندہ تعلق ، روحانی رابطہ اور ایک ایسا ذریعہ ہے جو ہمیں دنیا کے ہنگاموں سے نکال کر اپنے خالق کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے:
بندے اور کفر و شرک کے درمیان فرق نماز کا ہے ۔
ہمیں اس فرق کو برقرار رکھنا ہوگا، ہمیں سوچنا ہوگا کہ جس نے ہمیں زندگی دی، صحت دی، مال دیا، وقت دیا اس کے دن و رات میں پانچ مرتبہ اپنے سر کو جھکانا گراں ہے؟
اب بھی وقت ہے۔ ہم اپنے نفس کو بہانوں کی دلدل سے نکالیں، غفلت کی چادر اتاریں، اور نماز کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔
یاد رکھیں! دنیا کی کوئی مصروفیت، کوئی رشتہ، اور کوئی بہانہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے ہمارے کام نہ آئے گا۔
سنجیدگی، اخلاص، اور پابندی کے ساتھ نماز کی طرف لوٹنا ہی ہماری نجات کا واحد راستہ ہے۔
اور اللہ ہم سب کو نماز کا محافظ بنائے اور ”پہلے سوال“ کا درست جواب دینے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
