| عنوان: | ہم صرف مشکل میں ہی اللہ کو کیوں یاد کرتے ہیں |
|---|---|
| تحریر: | سفینہ الحفیظ |
| پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
کیوں زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب ہم زمین پر بھی بکھر جاتے ہیں۔ سجدے میں گر کر روتے ہیں، صرف اللہ کو پکارتے ہیں۔ جب دل شکستہ ہوجاتاہے، جب سننے والا کوئی نہ ہو، جب کوئی بھی نہ سنتا ہو، جب سارے در بند ہو جائیں، تب ہم کہتے ہیں: یا اللہ! صرف تو ہی ہے۔
لیکن جب وہی اللہ ہمیں سنبھال لیتا ہے، ہمارے حالات بہتر ہو جاتے ہیں، پھر کتنی جلدی ہم ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ ہم دوبارہ ہنسنے لگتے ہیں، ہمارے حالات بدل جاتے ہیں، اور جب دل ہلکا ہو جاتا ہے، تو اسی رب کو بھولنے لگتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اللہ کوئی ایمرجنسی کٹ نہیں ہے جو کسی دکھ میں کھولی جائے۔ وہ ہمارا رب ہے، ہر لمحے کا، ہر حال کا۔ کاش ہم خوشی میں بھی اس کو اسی طرح یاد رکھیں جس طرح غم میں رکھتے ہیں۔ تو شاید زندگی اتنی بے سکونی والی نہ ہو۔
کیونکہ جو رب دکھ میں ہمارے قریب رہتا ہے، وہی ہمیں خوشی میں بھی بلند کر سکتا ہے۔ اصل وفاداری تو یہی ہے کہ ہم صرف مشکل میں اللہ سے نہ مانگیں۔ اصل بندگی یہ ہے کہ ہم آسانی میں بھی شکر اور بندگی کے ساتھ اللہ سے جڑے رہیں۔
اصل بندگی یہ نہیں کہ بس آنسو بہا کر مانگ لیا جائے، بلکہ اصل محبت یہ ہے کہ نعمتوں میں بھی اس کی یاد کو دل سے نہ جانے دیا جائے۔ خوشی کے لمحے بھی اسی کی عطا ہیں، اس لیے خوشیوں میں اس کا شکر ادا کرنا، اس سے قربت بنائے رکھنا اور اس کے دین کو مضبوطی سے تھامے رہنا ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے۔
جب ہم صرف غم میں اس کو پکارتے ہیں، تو گویا اپنی کمزوری کو یاد کرتے ہیں۔ لیکن جب ہم خوشی میں بھی اس کو یاد کرتے ہیں، تو اپنی بندگی کو سچ کر دکھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو وہ دل زیادہ عزیز ہوتا ہے جو نعمتوں میں بھی اس کی محبت سے سرشار رہے، جو مشکل اور آسان ہر حال میں اسی کے حضور جھکتا رہے۔
کاش ہم سجدے میں گرتے ہوئے یہ بھی سوچیں کہ اس نے ہمیں کتنی آسانیاں عطا کیں اور وہ آسانیاں بھی شکر مانگتی ہیں۔ کاش ہمارے آنسو دعا بھی بنیں اور ہماری مسکراہٹیں شکر بھی۔ تب ہی دل کو وہ سکون ملے گا جو کسی اور شے میں نہیں۔ تب ہی ہماری محبت اور بندگی سچی اور کامل ہو سکے گی۔ جس کیفیت کو ہم سب نے اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی محسوس کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس کی حقیقت یوں بیان فرمائی:
وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْۢبِهٖۤ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَآىٕمًاۚ-فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَاۤ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّهٗؕ-كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْمُسْرِفِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (یونس: 12)
ترجمہ: کنز الایمان: اور جب آدمی کو تکلیف پہنچتی ہے ہمیں پکارتا ہے لیٹے اور بیٹھے اور کھڑے پھر جب ہم اس کی تکلیف دور کردیتے ہیں چل دیتا ہے گویا کبھی کسی تکلیف کے پہنچنے پر ہمیں پکارا ہی نہ تھا یونہی بھلے کر دکھائے ہیں حد سے بڑھنے والے کو ان کے کام۔
یہی وہ رب ہے جو دکھ میں بھی سنتا ہے اور آسانی میں بھی نوازتا ہے، بشرطیکہ ہم اس سے سچی لگن اور محبت کا رشتہ قائم رکھیں۔ اسی طرح فرمایا:
وَ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّاۤ اِیَّاهُۚ-فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْؕ-وَ كَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا (الاسرا:67)
ترجمہ: کنز الایمان: اور جب تمہیں دریا میں مصیبت پہنچتی ہے تو اس کے سوا جنہیں پوجتے ہیں سب گم ہوجاتے ہیں پھر جب وہ تمہیں خشکی کی طرف نجات دیتا ہے تو منہ پھیر لیتے ہو اور آدمی بڑا ناشکرا ہے۔
کاش ہم ان آیات کو سمجھ کر دل سے اللہ کے وفادار بن جائیں اور خوشی اور غم ہر حال میں اس کے در پر جھکنے والے بن جائیں۔ یوں ہی بندگی میں سچی راحت اور زندگی میں اصل سکون مل سکتا ہے۔
