عنوان: | راہ بھٹکا مسافر |
---|---|
تحریر: | سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
مسلم دنیا کا نوجوان آج جس فکری کشمکش، تشکیک اور ذہنی اضطراب کا شکار ہے، وہ محض وقتی حالات یا سوشل میڈیا کے اثرات کا نتیجہ نہیں بلکہ صدیوں کی فکری شکست کا تسلسل ہے۔ جب کسی قوم کے پاس ماضی کا کوئی مستحکم حوالہ، حال کا کوئی واضح نصب العین اور مستقبل کا کوئی روشن تصور نہ ہو، تو وہ قوم ذہنی غلامی، ثقافتی ادھورے پن، اور فکری بحران کا شکار ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی سے مسلمان نوجوان کا المیہ یہی ہے کہ اس کے دل میں کہیں قرآن کی آواز دب چکی ہے، اور دماغ مغربی فلسفوں سے معمور ہے۔ جب ذہن یورپ کے تصورات سے روشن ہو اور دل ایمان کی حرارت سے خالی ہو جائے تو کردار میں توازن باقی نہیں رہتا۔
مسلمان نوجوان کی سب سے بڑی آزمائش آج یہ ہے کہ وہ اپنے عقیدے کو ذاتی اور زندگی کو اجتماعی سمجھتا ہے، حالاں کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو انفرادی عبادت سے لے کر اجتماعی سیاست تک، ہر پہلو پر رہنمائی دیتا ہے۔ اس دوئی نے نوجوانوں کو ایک ایسے میدان میں دھکیل دیا ہے جہاں وہ نماز تو پڑھتا ہے مگر سودی نظام میں ملازمت کرنا اسے غلط نہیں لگتا، پردہ کی حمایت تو کرتا ہے مگر تفریح کے نام پر غیر اخلاقی مواد کو بھی ذاتی انتخاب کہہ کر جواز دے دیتا ہے۔
اسلامی تعلیمات کا اصل کمال یہی ہے کہ وہ انسان کے باطن کو روشن کر کے اس کے ظاہر کو بھی سنوارتی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے جو نظام قائم کیا، وہ صرف عبادات کا نہیں بلکہ عدل، تعلیم، تزکیہ، معیشت اور معاشرت کا مکمل نظام تھا۔ نوجوان جب تک سیرتِ نبوی سے اپنا تعلق مضبوط نہیں کرے گا، وہ مغربی نعروں اور لبرل فلسفوں کی چمک دمک سے متاثر ہوتا رہے گا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نوجوانوں کو قرآن کے تدبر، سیرت کے مطالعہ، اور اسلامی تاریخ کے شعور سے آشنا کریں۔ انہیں بتایا جائے کہ تہذیب صرف لباس کا نام نہیں، نظریے کا نام ہے؛ ترقی صرف سائنسی ایجادات نہیں، بلکہ کردار کی عظمت ہے؛ اور آزادی صرف مرضی سے جینے کا نہیں، حق کے تابع ہونے کا نام ہے۔
یہ کام کسی ایک خطیب، کسی ایک عالم، یا کسی ایک ادارے سے ممکن نہیں۔ یہ والدین، اساتذہ، میڈیا، تعلیمی نصاب اور دینی مراکز سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کے ذہنوں کو صرف علم سے نہیں بلکہ فہم سے بھی روشناس کرائیں۔ کیوں کہ علم اگر فکر نہ دے تو وہ بوجھ بن جاتا ہے، اور اگر فکر بے غیر علم کے ہو تو وہ گمراہی کا راستہ بناتی ہے۔
آخر میں یہی کہنا کافی ہے کہ ہماری بقا اسی میں ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو صرف فکری سطح پر نہیں، روحانی، اخلاقی اور عملی سطح پر بھی تیار کریں۔ اگر ہم نے آج اس سمت قدم نہ بڑھایا، تو آنے والے کل کا مورخ ہمیں صرف ایک ایسی قوم کے طور پر یاد کرے گا جس کے پاس دین تھا مگر وہ غیر کی فکری غلامی میں مگن تھی، اور جس کے ہاتھوں میں قرآن تھا مگر دل مغرب کی دہلیز پر رکھ دیے گئے تھے۔
اللہ رب العزت سے دعا گوں ہوں مولیٰ امت مسلمہ کو شریعت اسلامیہ پر مکمل پابندی کے ساتھ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین بجاہ النبی الامین ﷺ