| عنوان: | رزقِ حلال کی تلاش |
|---|---|
| تحریر: | عالمہ ام الورع ایوبی |
| پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
دینِ اسلام بندۂ مومن کو پاکیزہ اور صاف و شفاف زندگی گزارنے کا حکم دیتا ہے، اور حلال و حرام کی تمیز سکھاتا ہے۔ رزقِ حلال کی تلاش کرنے کا حکم دیتا ہے اور حرام ذرائع سے حاصل کی گئی زندگی سے بچنے کا سختی سے حکم دیتا ہے۔ طلبِ معاش میں کچھ ذرائع ایسے ہیں جو حلال ہیں، اور کچھ ایسے ہیں جو حرام ہیں۔ ہر بندے پر لازم ہے کہ وہ حلال کی طرف متوجہ ہو کر، حرام سے منہ موڑے۔ قرآنِ پاک میں متعدد مقامات پر حلال کھانے کی تاکید کی گئی ہے، اس لیے کہ جب بندہ حلال کماتا اور کھاتا ہے تو اس کے اندر ایمان کا نور اور پرہیزگاری کا سرور حاصل ہوتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
وَ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ (المائدہ: 88)
ترجمہ کنز الایمان: اور کھاؤ جو کچھ تمہیں اللہ نے روزی دی، حلال پاکیزہ، اور ڈرو اللہ سے جس پر تمہیں ایمان ہے۔ اس آیتِ کریمہ میں حلالاً طیباً سے وہ رزق مراد ہے جسے اللہ جلَّ شانہٗ نے ہمارے لیے حلال فرمایا، اور وہ چیزیں نشو و نما کے لیے فائدہ مند اور صاف و شفاف ہیں۔
اس کے تعلق سے علامہ شیخ وجیہ الدین علوی متوفی 998 ہجری تحریر فرماتے ہیں:
كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا۪
ای ما حل لکم و طاب مما رزقکم اللہ فیکون حلالا۔ (حاشیہ العلوی علی تفسیر بیضاوی، جلد 2، صفحہ 280)
ترجمہ: اور کھاؤ جو کچھ اللہ نے تمہیں روزی دی، حلال پاکیزہ؛ وہ چیزیں جو تمہارے لیے اللہ نے حلال کیں اور پاکیزہ بنائیں۔
مزید ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ لَا تَطْغَوْا فِیْهِ فَیَحِلَّ عَلَیْكُمْ غَضَبِیْۚ وَ مَنْ یَّحْلِلْ عَلَیْهِ غَضَبِیْ فَقَدْ هَوٰى (طٰہٰ: 81)
ترجمہ کنز الایمان: کھاؤ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں روزی دیں، اور اس میں زیادتی نہ کرو کہ تم پر میرا غضب اترے، اور جس پر میرا غضب اترا، بیشک وہ گرا۔
اس آیتِ کریمہ میں ہمیں حلال کھانے کی تاکید کی گئی ہے اور ناشکری سے منع کیا گیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ ناراض نہ ہو۔ جیسا کہ علامہ جلال الدین احمد محمد بن احمد بن محمد المحلی رحمۃ اللہ علیہ، تفسیرِ جلالین میں تحریر فرماتے ہیں:
كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ: ای المنعم بہ علیکم۔ وَ لَا تَطْغَوْا فِیْهِ: بان تکفر النعمۃ بہ۔ فَیَحِلَّ عَلَیْكُمْ غَضَبِیْ۔ (تفسیرِ جلالین، صفحہ 265)
پاک چیزوں میں سے جو ہم نے تمہیں دی ہیں، یعنی جو تم پر انعام کیا، اور ان چیزوں میں حد سے نہ بڑھو، یعنی ان نعمتوں کی ناشکری نہ کرو، ورنہ تم پر غضب اترے گا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ رِزْقُ رَبِّكَ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى (طٰہٰ: 131)
ترجمہ کنز الایمان: تیرے رب کا رزق سب سے اچھا اور سب سے دیرپا ہے۔
اس آیتِ کریمہ سے معلوم ہوا کہ اللہ ربّ العزت جو کچھ اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے، وہی رزق سب سے اچھا، پاکیزہ اور دیرپا ہوتا ہے۔ اور امام ابی البرکات عبداللہ بن احمد بن محمود النسفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
وَ رِزْقُ رَبِّكَ: ثوابہ وھو الجنۃ او الحلال الکافی۔ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى: مما رزقوا۔ (مدارک التنزیل و حقائق التاویل، صفحہ 149)
تمہارے رب کا رزق اس کا ثواب، اور وہ جنت ہے۔ یا حلال روزی جو کفایت کرے، وہ زیادہ بہتر اور زیادہ باقی رہنے والی ہے ان چیزوں سے جنہیں وہ رزق دیا گیا۔
ان تمام آثار سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ حلال کی تلاش کی اہمیت و افادیت بہت زیادہ ہے۔ حدیثِ پاک میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشہداء۔ (الترمذی: 1209)
ترجمہ: سچا اور امانت دار تاجر قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔
اس حدیثِ پاک میں بتایا گیا ہے کہ بے شک رزقِ حلال کمانے والا جنتی ہے۔ دوسری جگہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
ما أکل أحد طعاماً قط خیرًا من أن یأکل من عمل یده، وإن نبي الله داود علیہ السلام کان یأکل من عمل یده۔ (البخاری: 2078)
ترجمہ: کسی نے کبھی ایسا کھانا نہیں کھایا جو اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر ہو، اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے اس حدیثِ پاک میں بتایا گیا ہے کہ سب سے پاکیزہ روزی وہی ہے جو انسان خود کما کر کھائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حلال رزق کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین، بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔
