| عنوان: | آیت مبارکہ اور میدان کربلا |
|---|---|
| تحریر: | بنت شاہمیر حسین |
| پیش کش: | مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد |
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
ولَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ (البقرہ 155)
ترجمۂ کنز الایمان اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو۔
آیت کا مفہوم سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کردار سے دیکھیے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ایمان والو ہم ضرور ضرور تمہارا امتحان لیں گے تمہیں آزمائیں گے کس چیز کے ساتھ فرمایا خوف اور ڈر کے ساتھ اور بھوک کے ساتھ اور مالوں کی کمی کے ساتھ اور جانوں کی کمی کے ساتھ اور پھلوں کی کمی کے ساتھ کسی کا امتحان خوف کے ذریعے ہوگا، بھوک کے ذریعے امتحان ہوگا، کسی کا مالوں کی کمی سے امتحان ہوگا ،کسی کا جانوں کی کمی سے امتحان ہوگا ،کسی کا پھلوں کی کمی سے امتحان ہوگا۔
اب ذرا میدان کربلا کو دیکھیے: کہ کائنات کی تاریخ میں وہ کون سا واقعہ ہے؛ کہ جس میں یہ سارے امتحان اکٹھے ہو گئے تھے مختلف امتحانات مختلف لوگوں پہ آتے ہیں کہیں خوف کا آتا ہے ۔کہیں بھوک کا آتا ہے ۔کہیں ڈر کا آتا ہے۔ کہیں چاند کا آتا ہے۔
لیکن میدان کربلا وہ تھی کہ جہاں پر رب نے اپنے محبوب بندے کو اپنے مقبول بندے کو اپنے نبی کے بیٹے کو اپنے نبی کے نواسے کو آزمایا تو سارے امتحانات کو جمع فرما دیا۔ وہاں پر ڈر بھی ہے، وہاں پر خوف بھی ہے، وہاں پر بھوک بھی ہے، وہاں پر جانوں کا خطرہ بھی ہے، وہاں پر جانوں کا چلے جانا بھی ہے، وہاں پر شہادت بھی ہے، وہاں پہ اولاد کا ختم ہو جانا بھی ہے، آنکھوں کے سامنے اولاد کا شہید کر دیا جانا بھی ہے ،چھوٹے بچوں کے گلوں پہ تیر چلا دینا بھی ہے، وہاں پر بھوک بھی ہے ،وہاں پر پیاس بھی ہے۔
فرات وہاں پر قریب میں بہہ رہا ہے۔ لیکن پینے کے لیے پانی کا ایک قطرہ میسر نہیں ہے۔ دشمنوں کا لشکر جرار بھی ہے، ان کا ڈر خوف بھی سامنے نظر ارہا ہے، کہ سارے کے سارے امتحان میدان کربلا کے اندر جمع کر دیے گئے۔
اور امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے آیت مبارکہ کے اس حصے پہ کما حقہ عمل کر کے دکھا دیا۔ کہ صبر والوں کو بشارت دے دو: کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے، تو ان کی زبانوں سے جاری ہوتا ہے انا للہ وانا الیہ راجعون ہم تو ہیں ہی اللہ کے بے شک ہمیں اللہ ہی کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔
تو پھر رب اپنی رحمتوں کی بارشیں کیسے فرماتا ہے، فرمایا:
اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌوَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ (البقرہ 157)
ترجمۂ کنز الایمان یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی درودیں ہیں اور رحمت اور یہی لوگ راہ پر ہیں۔
تو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے ساتھ میدان کربلا میں شہید ہونے والی ہستیاں وہ کہ جن پہ رب کے درود اترے۔ جن پہ خدا کی رحمت اتری۔ جو دنیا والوں کے لیے نہ صرف مہدی بنے ،بلکہ دنیا والوں کے لیے ہادی بن گئے، پیشوا بن گیے۔
