| عنوان: | سند کے طلب گار نہیں بلکہ علم کے حریص بنو |
|---|---|
| تحریر: | آفرین لاکھانی |
| پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
بے شک قران و احادیث مبارکہ میں علماء کرام کی بہت ساری فضیلتیں بیان ہیں، حتی کہ ایک حدیث میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا :
جس نے کسی عالم کو دیکھا گویا کہ اس نے مجھے دیکھ لیا، جو کسی عالم کے پاس بیٹھا گویا کہ وہ میرے پاس بیٹھا، جس نے کسی عالم سے مصافہ کیا گویا کہ اس نے مجھ سے مصافہ کیا۔
اور حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا :
"اِنَّ العُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ" (سنن ابی داؤد:۳۶۴۱)
ترجمہ: بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں۔
لیکن کچھ سالوں سے یہ مشاہدے میں آ رہا ہے کہ لوگ آج فقط سند کے لیے مدرسے میں اپنا داخلہ لیتے ہیں، اور فقط سند کے لیے علم حاصل کر رہے ہیں، عالم مفتی وغیرہ کی سند مل جانے کے بعد کتابیں فقط الماریوں کی زینت بن کر رہ گئی، حالانکہ علماء کرام فرماتے ہیں کہ فقط سند کا عمل جانا کافی نہیں بلکہ زندگی بھر تحصیل علم میں اپنی اپنا وقت صرف کرو؛ حتی کہ اپنی آخری سانس تک علمِ دین حاصل کرتے رہو۔ لیکن لوگوں میں علم دین کا جذبہ بہت کم ہو گیا ہے۔ دو چار سال مدرسے میں گزار کر عالم و عالمہ کی سند حاصل کر لیتے ہیں لیکن کیا یہ کافی ہے؟ کیا فقط سند کے مل جانے سے یا درسِ نظامی پڑھ لینے سے کوئی عالم بن جاتا ہے؛ اگر اس کے قول و فعل سے اس کا علم ظاہر نہ ہو، اگر اس کے کردار سے اخلاق حسنہ نہ جھلکے، اگر وہ بے نمازی ہو، اگر وہ اپنے والدین کے عزت کرنا نہ جانتا ہو تو؛ تو اس عالم پر اس علم کیا اثر ہوا؟
امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عالم کی تعریف یہ ہے کہ عقائد سے پورے طور پر آگاہ ہو اور مُستقِل ہو اور اپنی ضَروریات کو کتاب سے نکال سکے بِغیر کسی کی مدد کے۔ علم کتابوں کےمُطالَعَہ سے اور عُلَماء سے سُن سُن کر بھی حاصِل ہوتا ہے۔ (اَحکامِ شریعت: ۲/ ۲۳۱)
علم دین کی چند شرائط ہیں:
- عربی لغت ، صرف اور نحو کا عالم ہونا کہ عربی عبارت بغیر اعراب کے صحیح پڑھ سکے اور قرآن مجید اور احادیث کا صحیح ترجمہ کر سکے ۔
- قرآن مجید، احادیث، آثار صحابہ رضی اللہ عنہم نبی کریم ﷺ اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی سیرت اور فقہ کا عالم ہو اور اس پر کامل عبور رکھتا ہو۔
- مسلک حق اہل سنت و جماعت کے عقائد اور ان کے دلائل کا عالم ہو اور باطل فرقوں کے رد کی کامل مہارت رکھتا ہو۔
- پیش آمدہ مسائل کا حل قرآن، سنت، علمِ کلام اور فقہ کی کتابوں میں دیکھ کر بغیر کسی کی مدد کے نکال سکتا ہو۔ واضح رہے کہ عالم اسے کہتے ہیں جو بغیر کسی کی مدد کے ضروریات کے مسائل کتب دینیہ سے اخذ کر سکے۔ عالم کی تعریف یہ ہے کہ عقائد سے پورے طور پر آگاہ ہو اور مستقل ہو اور اپنی ضروریات کو کتاب سے نکال سکے۔
لیکن آج کل کے نامی عالموں کا یہ حال ہے کہ انہیں عربی عبارت ٹھیک سے پڑھنے نہیں آتی؛ لیکن خود کو عالم کہتے ہیں! پھر تو یہی بات ہو گئی فارسی کا ایک مشہور قول ہے: سند چہ معنی دارد؟
اگر سند کافی ہوتی عالم بننے کے لیے؛ تو آج کی جدید ٹیکنالوجی کے دور میں؛ وہ جسے فقط اپنے نام کے ساتھ عالم و مفتی لگانا ہو، لیکن تحصیل علم سے بیزاری ہوتی ہو، وہ کمپیوٹر اور پرنٹر کی مدد سے کچھ سیکنڈ میں اپنے نام کی سند تیار کروا سکتا ہے! حالانکہ اس کے پاس بنیادی عقائد کا تک علم نہ ہو، قران مجید تک ٹھیک سے پڑھنا نہ آتا ہو، پھر بھی وہ اپنی سند کو بتا کر لوگوں سے کہے گا کہ میں عالم و مفتی ہوں!
امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سند کوئی چیز نہیں بُہتیَرے سَنَد یافتہ مَحض بے بَہرہ (یعنی علْمِ دین سے خالی) ہوتے ہیں اور جنہوں نے سند نہ لی اِن کی شاگردی کی لیاقت بھی اُن سَنَد یافتوں میں نہیں ہوتی۔ (فتاوٰی رضویہ: ۲۳/ ۶۸۳)
مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ: علم حاصل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ طالب علم بن کر کسی مدرسہ میں اپنا نام لکھائے اور پڑھے جیسا کہ رائج ہے بلکہ اس کا مطلب یہ کہ علمائے اہلسنت سے ملاقات کرکے شریعت کا حکم ان سے معلوم کرے یا معتبر اور مستند کتابوں کے ذریعہ حلال وحرام اور جائز وناجائز کی جانکاری حاصل کرے۔ (علم اور علماء: ٢٤)
عالم، عالمہ، مفتی، مفتیہ، مبلغ مبلغہ، فاضل، فاضلہ نام کے ساتھ لگ جانا کافی نہیں، سند کا حاصل کر لینا کافی نہیں، بلکہ علم کردار سے جھلکے، باتیں لوگوں کے دلوں میں اترے، علم فقہِ اس قدر وسیع ہو کہ جب کوئی اپنا مسئلہ بیان کریں تو اسے جواب دے سکیں، گوگل اور یوٹیوب کا استعمال نہ کرنا پڑے! وعظ ایسا کریں جو لوگوں کے دلوں میں اترے، جس کی بات لوگوں کے دلوں کو متاثر کریں، جذبہ ایمانی کو جگائے، ضمیر کو بیدار کرے، تقریر کے الفاظ میں وہ لیاقت ہو جو وجود کو جھنجھوڑ دے، اللہ اور رسولﷺ کے قریب کرے!
ان تمام اقوال کا خلاصہ کلام یہی ہے کہ وہ شخص جو علمِ دین کی صحیح معنی کو سمجھ کر فقط اللہ و رسول کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اور لوگوں میں جذبہ ایمانی بڑھانے، لوگوں کی اصلاح کی نیت سے علمِ دین حاصل کریں وہ کبھی بھی سند کا محتاج نہیں ہوتا! سند فقط ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے! جو اصل عالم ہوتا ہے اس کا علم اس کے قول و فعل سے ظاہر ہوتا ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں صحیح معنوں میں علمِ دین حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، علم صالح و نافع عطا فرمائے، ہم سے دین کی خدمات لے، لوگوں میں دینِ اسلام کی تبلیغ اور کرنے؛ لوگوں کے اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ریاکاری سے محفوظ فرمائے، آمین یا رب العالمین۔
