| عنوان: | نرمی اور برداشت |
|---|---|
| تحریر: | مفتیہ نازیہ فاطمہ |
| پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
دنیا میں اگر کوئی چیز انسان کو معزّز، باوقار اور محبوب بناتی ہے تو وہ اس کا اخلاق، نرمی، اور برداشت ہے۔ اسلام جس معاشرے کی بنیاد رکھتا ہے، اس کی جڑوں میں رحمت، حِلم، صبر، درگزر اور حسنِ سلوک جیسے اوصاف پیوست ہیں۔
افسوس! آج یہ صفات ہمارے معاشرے سے مفقود ہوتی جا رہی ہیں، اور نتیجہ یہ ہے کہ: گھروں میں لڑائیاں دلوں میں نفرت رشتوں میں دراڑ زبانوں پر سختی سوسائٹی میں تشدد یہ سب اسی بھولے ہوئے سنہری اصول کی کمی کا نتیجہ ہے۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم کے اخلاق کی سب سے نمایاں صفت کو یوں بیان فرمایا:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ ۚ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ۔ (آلِ عمران: 159)
ترجمۂ کنز الایمان: تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب! تم ان کے لیے نرم دل ہوئے، اور اگر تُند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہو جاتے، تو تم انہیں معاف فرماؤ، اور ان کے لیے استغفار کرو، اور کاموں میں ان سے مشورہ لو، اور جب کسی بات کا ارادہ پکا کر لو تو اللہ پر بھروسہ کرو، بیشک توکل والے اللہ کو پیارے ہیں۔
یہی نرمی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم کی دعوت، تعلیم، گفتگو، فیصلہ اور حتیٰ کہ دشمنوں سے سلوک میں بھی نمایاں تھی۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم نے اپنی زندگی میں بارہا ایسے مواقع پر نرمی اختیار فرمائی، جہاں ہم جیسے لوگ فوراً غصے میں آ جاتے۔ جب طائف میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم پر پتھر برسائے گئے تو آپ نے بددعا نہیں فرمائی، بلکہ فرمایا:
اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي، فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (البخاری:3231)
ترجمہ: اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے، کیونکہ وہ جانتے نہیں۔
ایک اعرابی مسجد میں پیشاب کرنے لگا، صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اسے روکنا چاہا تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم نے فرمایا:
دَعُوهُ، وَأَهْرِيقُوا عَلَى بَوْلِهِ سَجْلًا مِنْ مَاءٍ، فَإِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُيَسِّرِينَ وَلَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِينَ۔ (البخاری: 220)
ترجمہ: اسے چھوڑ دو، اور اس کے پیشاب پر ایک ڈول پانی بہا دو، تم آسانی پیدا کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو، سختی کرنے والے نہیں۔
نرمی کی فضیلت احادیث کی روشنی میں
أنَّ الرِّفْقَ لَا يَكُونُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ، وَلَا يُنْزَعُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ۔ (المسلم: 2594)
ترجمہ: نرمی جس چیز میں ہو، اُسے زینت بخشتی ہے، اور جس سے نکال لی جائے، اُسے بدنما کر دیتی ہے۔
مَنْ يُحْرَمِ الرِّفْقَ، يُحْرَمِ الْخَيْرَ كُلَّهُ۔ (المسلم: 2592)
ترجمہ: جسے نرمی سے محروم کر دیا گیا، وہ گویا ہر بھلائی سے محروم ہو گیا۔
ہمیں ہر موقع پر نرمی اختیار کرنی چاہیے، ہر بات تحمل سے سننی چاہیے، اور اگر کوئی ہمیں کچھ کہے تو برداشت کرنے کی عادت اپنانی چاہیے۔ برداشت کا مطلب ہے دوسروں کی بات صبر سے سننا دلائل و حکمت سے بات کرنا غصے کو ضبط کرنا حق پر ہوتے ہوئے بھی معاف کر دینا۔
نرمی اور برداشت کے فوائد
گھروں میں سکون، محبت اور الفت پیدا ہوتی ہے۔ رشتے جڑتے ہیں، ٹوٹتے نہیں۔ دلوں میں نرمی آتی ہے لوگوں کے دل جیتنا آسان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت و مدد شاملِ حال ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے آج سخت لہجہ فخر بن چکا ہے بدزبانی کو ہنر سمجھا جاتا ہے معاف کرنا کمزوری شمار ہوتا ہے حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے نرمی اور برداشت انسانی عظمت کی علامت ہے، اور ایک اسلامی سماج کی پہچان ہونی چاہیے۔ نرمی اور برداشت صرف اخلاق نہیں، دین ہے! یہ صرف ایک اچھی خُلق نہیں بلکہ دینی فریضہ ہے۔
یہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم کا خاص وصف تھا، اور امتِ محمدیہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم کے ہر فرد پر اس کو اپنانا لازم ہے آئیے! ہم خود بھی نرم مزاج بنیں، دوسروں کو بھی نرمی سکھائیں، اور ایک پُرامن اور مہذب معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کریں۔
اللّٰہ تبارک و تعالیٰ ہمیں نرمی و برداشت کے زیور سے آراستہ ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
