دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

سسرالی رشتہ کیسے نبھائیں

عنوان: سسرالی رشتہ کیسے نبھائیں
تحریر: کنیز تاج الشریعہ مصباح رضویہ
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

اولاد والدین کا قیمتی سرمایہ ہوتی ہے، جس کی حفاظت وہ خود سے بڑھ کر کرتے ہیں۔ والدین اولاد کیلئے بہترین ڈھال ہوتے ہیں۔ بچے کی پیدائش کے بعد والدین کی سوچ کا محور صرف اولاد ہوتی ہے۔ بیٹی کی پیدائش کے بعد والدین اسکی رخصتی کی ذمہ داری محسوس کرتے ہیں جبکہ بیٹے کی پیدائش پر ارمانوں کے ڈھیر لگا لیتے ہیں کہ چاند سی بہو لائیں گے۔

غرضیکہ پیدائش بچے کی ہو یا بچی کی خوشی اور تحفظ کے جذبات دونوں کیلئے یکساں ہوتے ہیں مگر ہاں! بیٹی کی پیدائش پر اُس کے نصیبوں سے خوف کا جذبہ والدین کے دل میں جنم لیتا ہے مگر لاکھ خوف و خدشات کے باوجود اسلامی اور معاشرتی اقدار کی بنا پر والدین کو اپنے لخت جگر کو خود سے دور کر کے ہمیشہ کیلئے پرائے گھر رخصت کرنا پڑتا ہے۔

در حقیقت والدین بیٹی کی رخصتی پر دہرے جذبات سے گزرتے ہیں، ایک طرف تو فرض کی ادائیگی پر خوش ہوتے ہیں، تو دوسری طرف اُسکے نصیبوں سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسے کون سے اصولوں پر عمل کیا جائے کہ جس سے نیا شادی شدہ جوڑا اور اُنکے خاندان والے ایک دوسرے سے راضی رہیں۔ تو اس میں عورت کی تربیت زیادہ مائنے رکھتی ہے کے وہ کس طرح اپنے سسرال کا دل جیت اور کس طرح اپنا سسرالی رشتے نبھائیں۔

سسرالی ذمےداری

میاں بیوی کا باہمی اور اسی طرح سسرالی رشتہ حسنِ اخلاق، حسنِ معاشرت اور ہم دردی و ایثار کے جذبہ سے ہی چل سکتا ہے، شریعتِ مطہرہ نے میاں بیوی کے حقوق میں توازن رکھا ہے اور حسنِ معاشرت کا حکم دے کر یہ واضح کیا ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ باہم اخلاقیات اور ایثار اور ہم دردی سے چلتا ہے، کچھ چیزیں بیوی کے ذمہ لازم نہیں کیں، اور کچھ شوہرکے ذمہ لازم نہیں کیں، لیکن حسنِ معاشرت کے باب میں دیانۃً اور اخلاقاً یہ چیزیں دونوں کی ایک دوسرے پر لازم ہیں۔

لہذا عورت کے ذمہ ساس سسر کی خدمت اگرچہ شرعاً واجب نہیں ہے، لیکن اَخلاقی طورپر عورت کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اُس کے شوہر کی ماں ہے، جس طرح اَپنی ماں کی راحت کا خیال رکھتی ہے اِسی طرح شوہر کی ماں کی خدمت اور اُن کو راحت پہنچانا اُس کی اخلاقی ذمہ داری میں شامل ہے، لیکن اس میں یہ پہلو بھی پیشِ نظر ہونا چاہیے کہ شوہر اپنی بیوی کو اپنے والدین کی خدمت پر یا ساس کا اپنی بہو کو خدمت پر مجبور کرنا اور اس پر اس ظلم جبر کرنا درست نہیں ہے۔

(بلکہ خود شوہر پر اپنے والدین کی خدمت کرنا ضروری ہے) یعنی دونوں طرف اعتدال کی ضرورت ہے، ساس کو چاہیے کہ وہ اپنی بہو کو بیٹی کی طرح سمجھے، اور اس کے دکھ درد میں شریک ہو، اور بہو کو چاہیے کہ وہ ساس کو اپنی ماں کی طرح سمجھے اور اس کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھے، اس سے گھریلو زندگی میں خوش گوار ماحول پیدا ہوگا، اور میاں بیوی کا ازدواجی رشتہ پائے دار اور مستحکم ہوگا۔

بہو کی ذمےداریاں

ہر خاندان کی تکمیل کے لیے بہو کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ بہوؤں کا کردار بہتر ہو تو سسرال (خوشگوار اسلامی خاندان) بن جاتا ہے ۔ سسرال میں ساس، سسر، جیٹھ، جیٹھانی، دیور، دیورانی، نند اور ان سب کے بچے وغیرہ رہتے ہیں۔

رشتے اور خاندان اللّٰہ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہیں، چاہے سسرال کے ہو ںیا میکے کے۔ ان تمام رشتوں کا اللّٰہ کی حفاظت اور نگرانی میں حق ادا کر نا چاہیے۔ رشتوں کو نبھانا اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے بڑا امتحان ہے۔ ہرانسان کا پرچہ مختلف ہوتا ہے ۔رشتوں کو نبھانے کے تعلق سے سب کے مزاج مختلف ہوتے ہیں ۔ اسلام حقوق حاصل کرنے کاحکم نہیں دیتا ہے، بلکہ فرائض ادا کرنے کا حکم دیتا ہے۔

بہو کو چاہیے کہ فرائض ادا کرنے پر دھیان دے اور تقویٰ اختیار۔تقویٰ، ساس، بہو، نند اور بھاوج جیسے سارے ہی رشتے داروں کو آپس میں لڑنے جھگڑنے اور نفرت بانٹنے سے روکتا ہے۔

اپنے قرابت داروں سے عدل و احسان کا معاملہ کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے کے قصور کو اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے معاف کر دینا چاہیے۔ اخلاقاً سسرالی رشتے داروں کی خدمت کریں، الگ رہنے کا مطالبہ نہ کریں۔ بچوں کے تعمیری کردار کے لیے ان کو ماں باپ کا پیار کافی نہیں ہوتا، پورے خاندان کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاندان کیسا بھی ہو، اس کو بحث کا موضوع بنانے کے بجائے افرادِ خاندان کے حقوق اور فرائض پر توجہ دینی چاہیے۔

نیک بیوی دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اگربہو چاہے تو گھر کوجنت کا نمونہ بنا سکتی ہے ۔گھر کو صاف ستھرا رکھیں، خانہ داری احسن طریقے سے انجام دیں، بہترین پکوان بنا کر بھی سسرالی رشتے داروں کے دل جیتے جا سکتے ہیں۔

شوہر کا سسرال

جس طرح عورت کے لیے سسرال ہے، اسی طرح مرد کو بھی داماد کے کردار میں سسرال ملتا ہے۔ سسرال سے دامادوں کا رشتہ عام طور پر مہمان والا ہوتا ہے۔ اس لیے دامادوں کو اپنی سسرال میں پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے ۔ زیادہ تر مسائل بہوؤں کے لیے پیش آتے ہیں ۔کچھ داماد آگے بڑھ کر سسرال کے ذمہ دار افراد میں شامل ہونا پسند کرتے ہیں۔

وہ سسرال کی بہت سی ضرورتوں کی تکمیل میں اور بہت سے مسائل کے حل میں اچھا رول ادا کرتے ہیں۔ یہ عام دامادوں سے مختلف مثالی داماد ہوتے ہیں۔داماد کے ساس سسر کے لیے تو یہ بڑی بات ہے کہ وہ ان کی بیٹی کو خوش رکھے۔چاہے داماد ہو یا بہو دونوں کی کوشش یہ ہو کہ وہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے والے بنیں، نہ کہ نقصان پہنچانے والے۔ تاکہ آگے چل کر ان کی اولاد کے لیے آسانیاں پیدا ہوں۔

کیا بہو کا سسرال میں رہنا فرض ہے

شادی شدہ لڑکی کا اپنے خاوند کے ساتھ رہنا فرض ہے، بیوی کو جہاں سکون میسر ہو، جس جگہ اس کی زیادہ حفاظت ہو وہ وہاں رہے گی۔ اخلاقی طور پر عورت کو اپنے سسرال ہی رہنا چاہیے البتہ اگر سسرال میں بیوی کو ناجائز تکالیف دی جائیں، اس کی حفاظت کا صحیح انتظام نہ ہو، اس کے حقوق پورے نہ کیے جائیں، تو ایسی صورت میں عورت ایسی جگہ رہے گی جہاں اس کا شوہر زیادہ مناسب سمجھے اور جہاں اس عورت کو سکون اور تحفظ میسر ہو۔

اگر خاوند موجود نہیں ہے اور سسرال میں لڑائی جھگڑا رہتا ہے جس سے فتنہ فساد پھیلتا ہے تو ایسی صورت میں عورت جہاں آرام وسکون سے رہ سکے وہاں رہے گی۔ سسرال والوں کے ساتھ رہنا فرض نہیں ہے بلکہ خاوند کے ساتھ رہنا فرض ہے۔

ساس سسر کی خدمت

شوہر کے والدین کی خدمت ایک اہم اور قابلِ تعریف عمل ہے۔ اسلام میں اس کی بہت اہمیت ہے اور اسے والدین کی خدمت کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ شوہر کے والدین کی خدمت کے کئی پہلو ہیں، جن میں ان کی ضروریات کا خیال رکھنا، ان کی دیکھ بھال کرنا، ان کے ساتھ نرمی اور احترام سے پیش آنا اور ان کی خوشی کا خیال رکھنا شامل ہے۔شوہر کے والدین کی خدمت ایک عظیم نیکی ہے اور اس سے نہ صرف شوہر کے والدین خوش ہوتے ہیں بلکہ یہ عمل کرنے والے کو بھی روحانی سکون اور خوشی کا احساس ہوتا ہے۔

شریعتِ مطہرہ نے ہر انسان کے حقوق کو بیان کیا ہے،اور اللہ تعالیٰ نے نسبی رشتے کی طرح سسرالی رشتے کو بھی اپنی نعمت شمار فرمایا ہے، نکاح کی برکت سے اللہ رب العزت نے لڑکا اور لڑکی کو ساس سسر کی شکل میں ايك اور ماں باپ عطا کیے ہیں، میاں بیوی میں سے ہر ایک کو اخلاقاً ایک دوسرے کے بڑوں کے ساتھ حسنِ سلوک و احترام کرنے کا پابند کیا ہے، اگر وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنے حقیقی والدین کی طرح اپنے ساس سسر کی عزت و احترام کریں تو یہ ان کے لیے دنیا میں باعثِ خیر و برکت اور آخرت میں باعثِ اجر و ثواب ہوگا، اور اچھے اخلاق کا تقاضا بھی یہی ہے،گو کہ بعض حقوق میں حقیقی والدین اور ساس سسر کے حقوق میں فرق ہے، تاہم شریعتِ مطہرہ نے ان کے ساتھ اخلاقی اعتبار سے حسنِ سلوک کا پابند کیا ہے، نیز مسلمان معاشرے کو آپس میں محبت و الفت کے ساتھ رہنے کا حکم دیا ہے۔

لہذا شوہر پر اپنےساس سسر کا احترام اور تعظیم لازم ہے،اور ان کی تذلیل کرنا ناجائز ہے، جس پر اس کو توبہ و استغفارکرنا چاہیے ،اور آئندہ اس طرح کرنے سے باز رہنا چاہیے،،البتہ جب شوہر سے غلطی ہوگئی تو سائلہ شوہر سے الجھے نہیں بلکہ صبر سے کام لے،اور شوہر کو اپنے والدین کا احترام اور ان سے معافی مانگنے پر آمادہ کرے،اس طرح کرنے سے حقوق کی پاسداری بھی ہوگی اور آپس کے معاملات بھی بہتر ہوجائیں گے۔ اِن شاء اللہ العزیز

اللہ ربّ العزّت تمام خواتین اسلام کو اپنی اپنی ذمےداریوں کا پابند بنائے اور ہر لڑکی کے سسرالی رشتہ کو مظبوط اور خوش گوار بنائے امین یا رب العالمین

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔