| عنوان: | حاضری بدرگاہ سرکارِ مدینہ ﷺ |
|---|---|
| تحریر: | ام ہانی امجدی |
| پیش کش: | مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد |
حدیث : مَنْ زَارَ قَبْرِي، وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِي. (میزان الاعتدال برقم 8937)
(جس نے میری قبر کی زیارت کی، اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی۔)
شکرِ خدا کہ آج گھڑی اس سفر کی ہے
جس پر نثار جان، فلاح و ظفر کی ہے
گرمی ہے، تپ ہے، درد ہے، کلفت سفر کی ہے
ناشکری یہ! تو دیکھ عزیمت کدھر کی ہے؟
میں اپنی زندگی کا وہ حسین لمحہ بھلا کیسے بھول سکتی ہوں، جب مجھے پروازِ مدینہ کا ٹکٹ مل گیا! میں پھولے نہ سما رہی تھی۔ میرے ساتھ میرے امی، ابو اور دو بہنیں بھی تھیں۔ غرض یہ کہ ہماری خوشیوں کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اللہ رب العزت نے ہمیں زندگی کی معراج عطا فرما دی ہو۔ اور کیوں نہ ہو! کہ وہ دربارِ گوہر نایاب ایسا مقدس و معظم ہے کہ ہر عاشقِ رسول ﷺ اس در کی حاضری کو تڑپتا ہے، اور اپنے سینے میں اس در کی حاضری کے لیے جیتا ہے۔
جب کبھی حاضری کا شرف مل جاتا ہے، تو پھر وہ ربِّ ذوالجلال کا جتنا شکر ادا کرے، کم ہے۔ کچھ ایسا ہی حال ہمارا بھی تھا۔ کبھی اس سرزمینِ مقدس کو تصور میں لاتے ہوئے خود کو وہاں کی وادیوں میں گم پاتے، تو کبھی گنبدِ خضریٰ کے دیدار کے حسین لمحوں کا تصور کرتے، جو کہ اب تصویر بننے والا تھا۔
غرض، ان لمحات کا سرور کچھ عجیب ہی عالم رکھتا تھا، جن کو ضبطِ تحریر میں لایا جانا ممکن نہیں۔ کبھی شوقِ مدینہ، تو کبھی تجسسِ دیدارِ گنبدِ خضریٰ۔ وقت گویا تھم سا گیا تھا یا پھر جلدی گزر ہی نہیں رہا تھا۔ کیونکہ مجھے وہ تمام فاصلے بہت جلد طے کرنے تھے جو اب تک مجھے اس پاک در سے دور کیے ہوئے تھے۔
خیر، اللہ اللہ کرکے وہ ساعت بھی قریب آ ہی گئی۔ بعد نمازِ جمعہ، نمازِ ظہر، نمازِ شکر ادا کی گئی۔ اور پھر ہم نکل گئے عزیز و اقارب کی نمناک آنکھوں اور اُن کی ڈھیر ساری دعاؤں کے سائے تلے۔ جو کہ بار بار بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں صلاۃ و سلام پیش کرنے کی التجائیں کر رہے تھے۔ اور جواباً ہم ان سے ان شاء اللہ کہتے ہوئے سفر بخیر و عافیت مکمل ہونے کی دعائیں لیتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئے۔
اب گاڑی اپنی منزل، لکھنؤ ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہو گئی۔ الحمدللہ! ہم وقتِ مقررہ سے پہلے ہی پہنچ گئے۔ جب فلائٹ کا وقت ہوا، تو پھر سے ایک نئی خوشی محسوس ہونے لگی۔ ہماری منزل قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی تھی۔ لکھنؤ سے دبئی اور وہاں سے دوسری فلائٹ ہمیں سیدھے مدینے لے گئی۔
الحمدللہ! اس شہرِ مقدس میں ہم پہنچ چکے تھے۔ اب بس گنبدِ سرکار ﷺ صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ ایئرپورٹ سے نکل کر ٹیکسی لی اور درود و سلام پڑھنے لگے۔ دل کی دھڑکنیں تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھیں۔ خیالوں کی دنیا الگ ہی بسی جا رہی تھی۔
کیسا ہوگا وہ گنبدِ خضریٰ؟ سنا ہے اسے دیکھ کر لوگ سارا زمانہ بھول جاتے ہیں۔ کیا واقعی؟ کیا میرے ساتھ بھی ایسا ہونے والا ہے؟ انگنت سوالات ایک ساتھ دماغ میں گردش کر رہے تھے۔
میں اس دربارِ مقدس میں حاضری کے قابل کہاں؟ اپنا یہ سراپا گندا وجود لے کر اس دربارِ گوہر بار میں بھلا کیسے؟ حضور کو تو سب معلوم ہے، تو کیا وہ ہمیں قبول فرما لیں گے؟ اور تو اور، مجھ گنہگار پر آقا ﷺ کی نظرِ رحمت؟ یہ اللہ! یہ کس طرح ہوگا؟
پھر، آقا ﷺ ہمیں دیکھ کر کیا فرمائیں گے؟ سوالات اور تذبذب کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری و ساری تھا کہ اچانک، راستہ طے کرتے ہوئے ہی، میری نظر اس سبز سبز گنبد سے دوچار ہوئی۔
میں اور میری بہنیں، ہم سب یکدم پکار اٹھے: امی! ابو! وہ دیکھئے! گنبدِ خضریٰ! گویا پورے وجود میں کائنات کی خوشیوں کی لہر دوڑ گئی ہو۔ صد شکر اس کریم رب کا، جس نے ہمیں اس مقدس دربار کی حاضری نصیب کی۔
جلدی جلدی ہوٹل پہنچے۔ اپنے روم میں گئے۔ غسل کر کے وہ کپڑے پہنے جو خاص پہلی مرتبہ مدینے میں پہننے کے لیے تیار کیے گئے تھے۔ خود کو خوشبو میں بسایا اور مسجدِ نبوی شریف کے راستے پر چل پڑے۔
امی، ابو اور بہنوں کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے، چلتی جا رہی تھی۔ سبحان اللہ! وہ منظر میری نگاہوں کے بالکل قریب! یا اللہ! تیرا کتنا کرم ہے! میں یہاں؟
یقین نہیں آ رہا تھا۔ حیرت سے میرا پورا وجود ساکت۔ آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ وہیں بیٹھ گئی۔ بس اتنا سمجھ سکتی ہوں کہ وہاں کی بہار احاطۂ تحریر میں لانا ممکن نہیں۔
پھر ذرا ہوش آیا تو اُن سب سے کہا: چلو، پہلے نماز ادا کر لیتے ہیں۔ پھر ہم نماز سے فارغ ہوئے تو وقت رات کا کافی ہو چکا تھا۔ خواتین کی حاضری، دعاؤں اور نمازوں کا سلسلہ چل رہا تھا۔ ہم نے بھی ریاض الجنۃ میں نماز ادا کی، اور آقائے کریم ﷺ کی بارگاہ میں صلاۃ و سلام کا نذرانہ پیش کیا۔ دعائیں مانگیں، بالخصوص آقا ﷺ سے شفاعت کا سوال کرتے رہے۔ پھر دیر تک درود و سلام پڑھتے رہے۔
پھر یہ خیال آیا کہ ابھی روم پر جانا ہے، اور وقت بھی کافی ہو چکا ہے۔ چاہتے نہ چاہتے، بوجھل قدموں سے واپسی ہونا پڑی۔ مگر اس شوق سے کہ صبح پھر آقا کے دربار میں حاضری کی سعادت حاصل کریں گے۔
اور جب تک وہاں مقیم رہے، اس سوکِ مستی میں دن گزرتے رہے۔ اللہ! اللہ! کیا دن تھے وہ...
اللہ رب العزت ہم سب کو اس بارگاہِ ناز کی بار بار حاضری نصیب فرمائے۔ آمین بجاہِ النبی الأمین ﷺ۔
