| عنوان: | مال حلال کی ضرورت و اہمیت |
|---|---|
| تحریر: | ماہین رضوی |
| پیش کش: | مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد |
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں جہاں لوگ جسم کو پاک و صاف رکھنے کا خیال تو رکھتے ہیں۔ مگر روح کی پاکیزگی یعنی حلال و حرام کی تمیز نہیں کرتے۔ جس طرح ظاہری صفائی جسم انسانی کے لئے ضروری ہے۔ اسی طرح روحِ انسانی کی حقیقی پاکیزگی کے لئے حلال و حرام کا دھیان رکھنا ضروری ہے۔ اگر جسم کی صفائی کا خیال نہ رکھا جائے تو اس سے انسانی صحت متاثر ہوتی ہے۔ اگر حلال و حرام کی تمیز نہ کی جائے تو روح بے شمار امراض کا نشانہ بن سکتی ہے۔
اسلام کی پاکیزہ تعلیم میں ظاہری صفائی اور حقیقی پاکیزگی دونوں کے احکام واضح طور پر موجود ہیں۔ حلال طریقے سے روزی کمانا اور رزق تلاش کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بڑی تاکید کی ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا (البقرۃ: 168)
ترجمہ کنزالایمان: اے لوگوں کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے۔
حلال و پاکیزہ سے مراد وہ چیزیں ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال کیا ہے۔ جو بذاتِ خود بھی حلال ہوں جیسے بکرے کا گوشت، دال، سبزی وغیرہ اور ہمیں حاصل بھی جائز ذریعے سے ہو یعنی چوری، رشوت، ڈکیتی وغیرہ کے ذریعے نہ ہو۔ اسی کے بر عکس حرام چیزیں وہ ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام کیا ہے۔ یہ بھی دو طرح کی ہیں ایک وہ جو بذاتِ خود حرام ہوں جیسے حرام جانور کا گوشت، مردار، شراب وغیرہ۔ دوسرا وہ مال جو ناجائز طریقے سے حاصل کیا جائے مثلاً چوری سے حاصل ہونے والا، جوا سے حاصل ہونے والا مال، رشوت وغیرہ۔
احادیث مبارکہ میں بھی کئی جگہ کسبِ حلال کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ ان میں سے چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔
طَلَبُ الْحَلَالِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ (الطبراني في الأوسط، 8610)
ترجمہ: حلال روزی کی تلاش ہر مسلمان پر فرض ہے۔
عَن الْمِقْدَاد بْنِ مَعْدِي كَرِبَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَكَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدَيْهِ وَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ كَانَ يَأْكُلُ مِنْ عمل يَدَيْهِ (صحیح البخاری 2759)
ترجمہ: مقدام بن معدی کرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی شخص نے اپنی ہاتھ کی کمائی سے زیادہ بہتر کھانا کبھی نہیں کھایا ، اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کھایا کرتے تھے۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا وَأَنَّ اللَّهَ أَمَرَ المؤْمنينَ بِمَا أمرَ بِهِ المرسَلينَ فَقَالَ: (يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ واعْمَلوا صَالحا) قَالَ: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ) ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ: يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِّيَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ؟ (صحیح المسلم2706)
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ پاک ہے اور وہ صرف پاک چیز ہی قبول فرماتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جس چیز کے متعلق رسولوں کو حکم فرمایا، اسی چیز کے متعلق مومنوں کو حکم فرمایا تو فرمایا: رسولوں کی جماعت! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ایمان والو! ہم نے جو پاکیزہ چیزیں تمہیں عطا کی ہیں ان میں سے کھاؤ۔ پھر آپ نے اس آدمی کا ذکر فرمایا جو دُور دراز کا سفر طے کرتا ہے پراگندہ بال اور خاک آلود ہے، آسمان کی طرف اپنے ہاتھ پھیلائے دعا کرتا ہے یا رب! حالانکہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام اور اسے حرام کی غذا دی گئی تو ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہو؟
وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ لَحْمٌ نبَتَ منَ السُّحْتِ وكلُّ لحمٍ نبَتَ منَ السُّحْتِ كَانَتِ النَّارُ أَوْلَى بِهِ (شعب الایمان: 2772)
ترجمہ: جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حرام سے پرورش پانے والا گوشت، جنت میں داخل نہیں ہوگا، اور حرام سے پرورش پانے والا ہر گوشت جہنم کی آگ ہی اس کی زیادہ حق دار ہے۔
لَا تُقبْلُ صَلٰوةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ وَلَا صَدَقَةٌ مِنْ غُلُولٍ (صحيح مسلم: 535)
ترجمہ: بغیر پاکیزگی کے نماز قبول نہیں ہوتی اور حرام مال سے صدقہ بھی قبول نہیں ہوتا۔
مندرجد بالا احادیث مبارکہ سے مالِ حلال کی ضرورت اور اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ جس کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرض کے بعد حلال روزی حاصل کرنا فرض ہے۔ دعا اور عبادت کی قبولیت کا دارومدار حلال روزی کے حصول اور استعمال پر موقوف ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ دعا کے دو بازو ہوتے ہیں۔ (1) اکل حلال (2) صدقِ مقال یعنی حلال اور پاکیزہ کمائی اور سچ بولنا۔ جس جسم کو حرام غذا دی گئی ہو وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ حرام مال میں سے صدقہ کرنے سے صدقہ قبول نہیں ہوتا۔ اللہ تعالی پاک ہے اور پاک وصاف کو قبول فرماتا ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری عبادتیں، دعائیں، صدقات و خیرات رب کی بارگاہ میں قبول ہوں تو ہمیں چاہیے کہ رزقِ حلال حاصل کریں اور مالِ حلال سے حلال چیزیں ہی خریدیں۔ رزق حلال کے بہت سے ذرائع ہیں جیسے تجارت یعنی خرید و فروخت، اس سلسلے میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ تجارت کرنے والا سچ بولے اور اگر کسی چیز میں کوئی عیب یا نقص ہے تو برملا اسے بیان کرے۔ ناپ تول میں عدل کرے۔ اس کے علاوہ کسی کے یہاں ملازمت کرنا، محنت مزدوری کرنا، جس فن میں مہارت ہو اس کے ذریعے رزق حاصل کرنا وغیرہ۔bاس بات کا بھی خیال رہے کہ مالِ حلال سے حلال چیزیں ہی خریدیں کیونکہ بعض اوقات خرچ کرنے سے حلال کمائی ناجائز وہ حرام ہو جاتی ہے۔ مثلاً لہو و لعب، جوا وغیرہ میں خرچ کرنا۔
دورِحاضر کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی رب کی توفیق سے مالِ حلال حاصل کر بھی لے تو خرچ کرتے وقت حلال و حرام کی تمیز نہیں کر پاتا کہ وہ اپنے حلال مال سے حلال چیز ہی خرید رہا ہے یا حرام خصوصیت کے ساتھ گوشت کے معاملے میں، گوشت خریدتے وقت یا کہیں دعوت وغیرہ میں یا پھر ہوٹلوں وغیرہ میں کھاتے وقت لوگ اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ وہ جو گوشت کھا رہے ہیں حلال ہے یا نہیں۔
اگر اس گوشت کو کسی بد مذہب یا مرتد نے ذبح کیا ہو تو وہ گوشت سنی صحیح العقیدہ مسلمان کے لئے ناجائز و حرام ہے۔اسی طرح بازاروں میں ایسی بہت سی چیزیں ملتی ہیں جن میں حرام جانوروں کی چربی یا ان کی ہڈی وغیرہ کی آمیزش ہوتی ہے۔ بہت سےی ایسی سوفٹ ڈرنک یا اینرجی ڈرنکز ہوتی ہیں جن میں الکوحل کی آمیزش ہوتی ہے۔ایسی چیزوں کے خرید و فروخت میں بھی احتیاط لازم ہے۔ کہ ایسی چیزوں کو خریدنا اور بیچنا دونوں ناجائز و حرام ہے۔
عصر حاضر میں ہر ایک کی شکایت ہے کہ رزق میں برکت نہیں، دعائیں قبول نہیں ہوتی، بچے والدین کی نافرمانی کرتے ہیں، مختلف اقسام کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں، ہر کوئی ان میں سے کسی نہ کسی وجہ سے حیران و پریشان ہے۔ کہیں نا کہیں ان پریشانیوں کی ایک وجہ حرام مال اور حرام غذا ہے۔جب حرام کمایا جائے تو اس میں برکت کیسے ہوگی؟؟ جب حرام کھایا اور بچوں کو کھلایا جائے تو اولاد فرمانبردار کیسے ہوگی؟؟
آج لوگوں نے مقدار کو ترجیح دی معیار کو نہیں۔ لوگ کثرت مانگتے ہیں برکت نہیں۔ جبکہ رب سے برکت مانگنی چاہئے کثرت یہ ہے کہ ہمارے پاس اتنا اتنا مال ہونا چاہئے تاکہ ہماری ضروریات پوری ہو جائیں اور برکت یہ ہے کہ رب قدیر نے جتنا دیا ہے اس میں ضرورت لازماً پوری ہوگی۔ اسی لئے رب سے برکت اور اس کا فضل مانگیں۔ رزق حلال کے ذرائع اور حلال غذا مانگیں۔ رب قدیر ہم تمامی کو حرام کمانے اور حرام کھانے سے محفوظ فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
