| عنوان: | علما کی توقیر |
|---|---|
| تحریر: | کنیز تاج الشریعہ مصباح رضویہ |
| پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
علما کی شان بہت بلند ہے کیوں کہ وہ علم کے وارث اور دین کے رہنما ہوتے ہیں۔ ان کا مرتبہ انبیاء کے بعد سب سے اونچا ہے کیونکہ وہ علم اور ہدایت کا ذریعہ ہیں۔ علماء وہ ہستیاں ہیں جو دینِ اسلام کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں اور لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ان کی عزت و تکریم ہر مسلمان پر فرض ہے۔
علماء کی شان کے بارے میں کچھ اہم باتیں
علم کے وارث
علماء انبیاء کرام علیہم السلام کے حقیقی وارث ہیں، جو علم اور حکمت کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔
دین کی رہنمائی
وہ لوگوں کو دینِ اسلام کی صحیح تعلیمات سکھاتے ہیں اور ان کی زندگیوں کو اسلام کے مطابق ڈھالنے میں مدد کرتے ہیں۔
معاشرے کی اصلاح
علماء معاشرے میں برائیوں اور گمراہیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور لوگوں کو نیکی اور بھلائی کی طرف بلاتے ہیں۔
تکریم و احترام
علماء کی وجہ سے ہی علم کی اہمیت اور افادیت قائم رہتی ہے اور لوگ علم حاصل کرنے کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں علماء قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی گزارنے اور دوسروں کو بھی اس راہ پر چلنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
علماء کی عظمت
علمائے کرام تو قرآن و حدیث کی تعلیم کی وجہ سے ربّانی یعنی ”رب والے، اللہ والے ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
كُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَ بِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَۙ (ال عمرٰن:79)
تَرجَمۂ کنزُالعرفان: اللہ والے ہوجاؤ کیونکہ تم کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور اس لئے کہ تم خود بھی اسے پڑھتے ہو۔
یعنی جو لوگ خدا کی کتاب جیسے قرآن سِکھاتے اور اس کا درس دیتے ہیں وہ ربانی علماء ہیں۔ اب غور فرمالیں کہ قرآن سِکھانے اور اس کا دَرس دینے کا کام علمائے دین کرتے ہیں یا دین سے بیزار لوگ؟ اور یہ بھی غور فرمالیں کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندے قرار دیتا ہے اُن سے دور اور متنفِّر کرنے کی کوشش کرنے والے لوگ کس قُماش کے ہیں اور کس کو ماننے والے ہیں؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ عِبادُالرّحمٰن یعنی بندگانِ رحمٰن کے خلاف کلام کرکے یہ لوگ بندگانِ شیطان میں داخل ہوجائیں۔
علماء اکرام کے چند حقوق
اطاعت کرنا: مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: فُقَہاء کی طرف رجوع کرنا بھی رسول ہی کی طرف رجوع کرنا ہے کیونکہ فقہاء حضور ہی کا حکم سناتے ہیں۔ جیسے حضور کی اطاعت الله کی اطاعت ہے ایسے ہی عالمِ دین کی فرمانبرداری رسول الله کی فرمانبرداری ہے۔ (نور العرفان ، ص137 ، 138)
تعظیم کرنا: عُلَمائے کرام کی تعظیم کرنا ہر ایک پر لازم ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 649 پر علمائے دین کی توہین کے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : سخت حرام ، سخت گناہ اَشد کبیرہ ، عالمِ دین سنی صحیحُ العقیدہ کہ لوگوں کو حق کی طرف بلائے اور حق بات بتائے محمد رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نائب ہے اس کی تحقیر مَعاذَ الله محمد رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی توہین ہے۔
اعتراض سے بچنا: علمائے کرام پر اعتراض کرنا سخت جرم ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: حقیقۃً عالمِ دین ، ہادیِ خلق ، سنی صحیحُ العقیدہ ہو ، عوام کو اس پر اعتراض ، اس کے افعال میں نکتہ چینی ، اس کی عیب بینی حرام حرام حرام اور باعثِ سخت محرومی اور بد نصیبی ہے۔ (فتاویٰ رضویہ ، 8 / 97)
احکامِ شرعیہ میں عُلَما پر بھروسا کرنا: ہمیں چاہئے کہ دینی مسائل میں ان پر اعتماد کر کے ان کے بتائے ہوئے فتاویٰ و مسائل پر عمل کریں کیونکہ یہ نائبِ رسول ہیں۔ حدیث پاک میں ہے : عالم زمین میں اللہ کا امین ہوتا ہے۔ (جامع بیان العلم و فضلہ ، ص74 ، حدیث 225)
مدد و نصرت کرنا: ہمیں ہر طرح سے ان کی نصرت و حمایت کرنی چاہئے ، ان کی امداد و استعانت پر کمر بستہ رہنا چاہئے وہ زبان کے ذریعے ہو یا مال کے ذریعے۔ اور ان کے بارے میں بُرا سننے سے بھی بچا جائے۔
یاد رکھئے! یہ ساری فضیلتیں علمائے حق کو حاصل ہیں۔امیرِ اہلِ سنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ لکھتےہیں : صرف علمائے اہلِ سنّت ہی کی تعظیم کی جائے۔ رہے بدمذہب عُلَما تو ان کے سائے سے بھی بھاگے کہ ان کی تعظیم حرام ، ان کا بیان سننا ان کی کتب کا مطالعہ کرنا اور ان کی صحبت اختیار کرنا حرام اور ایمان کے لئے زہر ہَلاہِل ہے۔ (کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب ، ص 359)
اللہ پاک ہمیں عاشقانِ رسول عُلَمائے کرام کے حقوق کی ادائیگی کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
