| عنوان: | علم حاصل کرنے کی فضیلت و ضرورت |
|---|---|
| تحریر: | بنت اصغر علی |
| پیش کش: | مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد |
سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیں کہ یہاں علم سے مراد دنیاوی علوم نہیں، بلکہ علم دین ہے کیوں کہ دنیاوی علوم تو دنیا تک محدود ہے، آخرت میں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور رہی بات علم دین کی جس کے سیکھنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے پہلی وحی میں نازل فرمایا اقرا باسم ربک الذی خلق یعنی پڑھو! اپنے رب کے نام سے جس نے تمہیں پیدا کیا۔
اب آئیں! علم کی اہمیت وضرورت اور علما کی شان وعظمت پر روشنی ڈالیں۔
علم ایک نور ہے، ایک روشنی ہے، ایک شمع ہے، علم ہدایت کا سرچشمہ ہے، علم گناہوں سے بچنے کا ذریعہ ہے، علم انبیا کی میراث ہے، علم مردہ دلوں کی حیات ہے، علم خوف خدا کو دل میں بیدار کرنے کا عظیم سرمایہ ہے، علم قربت الٰہی کا راستہ ہے، علم ایمان کی سلامتی کا محافظ ہے، علم عشق رسول ﷺ اپنے قلب میں پیدا کرنے کا عظیم تحفہ ہے۔ الغرض! علم بے شمار خوبیوں کا جامع ہے، اس میں دین بھی ہے دنیا بھی، اس میں راحت بھی ہے سکون بھی، علم ہی کے ذریعے فہم و فراست میں اضافہ ہوتا ہے، صحیح و درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، علم تاریک دلوں کو منور کرتی ہے لہذا! عقلمند وہی ہے جو طلب علم دین میں مشغول ہو کر نجات اخرت کا سامان کر جائے۔
اللہ تبارک و تعالی قران مجید و فرقان حمید میں علم و علما کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ- (الزمر، ۹)
ترجمہ کنزالایمان: تم فرماؤ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں؟
اس آیت سے علم اور علماءِ کرام کی فضیلت معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے علم والوں کو بے علموں سے ممتاز فرمایا ہےکہ جاہل وعالم کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ پھر اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ سبحانہ و تعالی علم و علماء کی شان و عظمت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
*یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْۙ-وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍؕ (المجادلہ، ۱۱)
ترجمہ کنز الایمان: اللہ تم میں سے ایمان والوں کے اور ان کے درجات بلند فرماتا ہے جنہیں علم دیا گیا۔
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علماءِ دین بڑے درجے والے ہیں اور دنیا و آخرت میں ان کی عزت ہے، جب اللہ تعالیٰ نے ان کے درجات کی بلندی کا وعدہ کیا ہے تو انہیں اس کے فضل و کرم سے دنیاوآخرت میں عزت ضرور ملے گی۔
بیان کردہ آیات مبارکہ سے علم دین کی فضیلت واضح طور پر روشن ہوئی۔ اب آئیں! کچھ احادیث مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں اور اپنے دل میں علم کی اہمیت وضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔
حدیث شریف میں ہے:
وعن معاویة قال: قال رسول الله صلی الله عليه و سلم: من يرد اللّٰه به خيرا يفقهه في الدين وإنما أنا القاسم والله المعطي. (مشکوة: 200)
ترجمہ: روایت ہے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ جس کا بھلا چاہتا ہے اسے دین کا فقیہ بنا دیتا ہے میں بانٹنے والا ہوں اللہ دیتا ہے۔
عن ابن عباس رضی الله عنهما قال: قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم: فقية واحد أَشد علی الشيطان من أَلْف عابد. (مشکوة: 217)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک فقیہ شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔
عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من سلك طريقا يلتمس فيه علما سهل الله له طريقا إلى الجنة. (ترمذی: 2646)
ترجمہ: ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو علم حاصل کرنے کے ارادہ سے کہیں جائے، تو اللہ اس کے لیے جنت کے راستے کو آسان (و ہموار) کر دیتا ہے۔
بیان کردہ احادیث سے معلوم ہوا کہ علم دین ایک عظیم نعمت ہے، جو مردہ دلوں کو زندہ کرتی ہے، روح کو تازگی بخشتی ہے، حق و باطل کے درمیان امتیاز کرتی ہے، حلال و حرام میں فرق کرنا سکھاتی ہے، انسان کو باحیا باکردار بناتی ہے، اسلاف کے نقش قدم پر زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہے، ناموس تاجدار ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا محافظ بناتی ہے، علم دین کے فضائل کی تو کیا بات ہے!
صدر الشریعہ حضرت علامہ و مولانا مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:
علم ایسی چیز نہیں جس کی فضیلت اور خوبیوں کو بیان کرنے کی حاجت ہو، ساری دنیا ہی جانتی ہے کہ علم بہت بہتر چیز ہے، اس کا حاصل کرنا بلندی کی علامت ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس سے انسانی زندگی کامیاب اور خوشگوار ہوتی ہے، اور اس سے دنیا و آخرت بہتر ہوتی ہے۔ (اس علم سے) وہ علم مراد ہے جو قرآن و حدیث سے حاصل ہو کہ یہی وہ علم ہے، جس سے دنیا وآخرت دونوں سنورتی ہے اور یہی علم ذریعہ نجات ہے، اور اسی کی قران وحدیث میں تعریفیں آئی ہیں، اور اسی کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ (بہارشریعت، ج۳)
لیکن افسوس! اج ہم علم دین سے اتنے دور ہیں کہ ہمارے پاس اتنا بھی وقت نہیں کہ ہم فرض علوم حاصل کرلیں، ہمیں چاہیے کہ ہم اتنا علم حاصل کریں کہ شریعت کے حدود میں رہ کر زندگی گزار سکیں۔ عقیدہ توحید ونبوت، نماز وروزہ، حج وزکوة، نکاح وطلاق وغیرہ کے ضروری مسائل سیکھ لیں۔ آج جو بے حیائیاں عروج پر ہے، لڑکیاں جو مرتد ہو رہی ہیں، پردے کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں، اولاد کی بے راہ روی، یہ میاں بیوی کے جھگڑے یہ سب کہ سب دین سے دوری کا سبب ہے۔
اسلام نے نہ ہمیں صرف علم حاصل کرنے کی دعوت دی بلکہ ہر شخص پر فرض قرار دیا ہے کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان عالی شان ہیں:
طلب العلم فریضة علی کل مسلم ومسلمة (مشکوة، 218)
ترجمہ: علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے
علم ایک روشنی ہے، جہالت اندھیرا ہے، علم بلندی کا سبب ہے اور جہالت پستی کا سبب ہے، علم عروج کا سبب ہے،جہالت یہ زوال کا سبب ہے، علم زندگی ہے اور جہالت موت ہے، علم نور ہے جہالت تاریکی ہے، علم سے تواضع وعاجزی آتی ہے، اور جہالت سے تکبّر پیدا ہوتی ہے، علم سے اللہ تعالیٰ کی خشیّت اور خوف پیدا ہوتا ہے؛ جب کہ جہالت سے ریا و نمود میں اضافہ ہوتا ہے۔
علم کی اہمیت و ضرورت کا اندازہ اس مثال سے لگایا جا سکتا ہے کہ علم دین وہ ہے جس سے ہر وقت واسطہ پڑتا ہے اس کی مثال غذا کی طرح ہے جس طرح غذا انسان کے لیے لازمی جز ہے اسی طرح انسان کے لیے علمِ دین کا حاصل کرنا بھی ضروری ہے حیاتِ قلب تو علم ہی پر منحصر ہے لہذا علم کو حاصل کرو اور جہالت موتِ قلب ہے لہذا اس سے اجتناب کرو۔
علم وہی بہتر ہے جس سے ہم اللہ کی پہنچان و معرفت حاصل کریں، اسکا خوف دل میں بسائیں، اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی و سچی محبت پالیں، اور علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کریں العلم بلا عمل کشجر بلا ثمر کیونکہ؛ علم بغیر عمل کے ایسا ہے جیسا کہ درخت بغیر پھل۔
العلم بلا عمل وبال
العمل بلا علم ضلال
والجمع بینھما کمال
علم بغیر عمل کے وبال ہے۔
عمل بغیر علم کے گمراہی ہے۔
اور ان دونوں کو جمع کرنا کمال ہے۔
یہی ہے آرزو تعلیم قران عام ہو جائے
ہر پرچم سے اونچا پرچمِ اسلام ہوجاے
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں علمِ دین حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین بجاہ سید النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
