| عنوان: | بادلوں کا آنا اور بارش نہ ہونا |
|---|---|
| تحریر: | نشاء انجم امجدی |
| پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
آج ہم ایک ایسے مظر کا مشاہدہ کرتے ہیں جو اکثر ہماری نظروں سے گزرتا ہے: آسمان پر گہرے بادل چھا جاتے ہیں، ہوائیں تیز چلتی ہیں، موسم بدلنے لگتا ہے لوگ اُمیدیں باندھنے لگتے ہیں لیکن تھوڑی ہی دیر بعد وہ بادل بغیر بارش کے بکھرنے لگتے ہیں اور بارش نہیں ہوتی یہ منظر صرف قدرتی لحاظ سے حیران کننہیں ہے بلکہ ایک جھنجوڑ ہے ایک پیغام ہے کہ بادلوں کا آنا اور بارش کا نہ ہونا محض موسمی تبدیلی نہیں ہے بلکہ ایک روحانی پیغام ہے،غور فکر کا مقام ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے رحمت کے دروازے کھلنے والے ہی تھے پھر بند ہوگۓ یہ انسان کے اعمال کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ شاید ہم نے اپنے گناہوں، نافرمانیوں، اور بے حسی سے ان دروازوں کو خود بند کر دیا۔ اللہ کی رحمت تو ہمیشہ مہربان ہے، لیکن اس کا بند ہونا ایک warning ہے کہ ہم اپنے اندر جھانکیں، اپنے اعمال کا محاسبہ کریں، اور سچے دل سے توبہ کریں۔
بارش کو اللہ تعالیٰ نے رحمت قرار دیا:
هُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَ یَنْشُرُ رَحْمَتَهٗؕ وَ هُوَ الْوَلِیُّ الْحَمِیْدُ (الشوریٰ:28)
ترجمہ کنزالایمان: اور وہی ہے کہ مینہ اُتارتا ہے اُن کے نا امید ہونے پر اور اپنی رحمت پھیلاتا ہے اور وہی کام بنانے والا ہے سب خوبیوں سراہا
اللہ تعالیٰ قرآن عظیم میں فرماتا ہے:
الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ (الروم:41)
ترجمۂ کنز الایمان: چمکی خرابی خشکی اور تری میں ان برائیوں سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمائیں تاکہ انہیں ان کے بعض کوتکوں کا مزہ چکھائے کہیں وہ باز آئیں۔
یہ آیت صاف بتا رہی ہے کہ بارش اور رزق جیسی نعمتوں کا تعلق ہماری نیکیوں اور بداعمالیوں سے ہے۔ جب گناہ بڑھتے ہیں، ناانصافی، ظلم، فحاشی اور نافرمانی عام ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ رحمت کے دروازے بند فرما دیتا ہے۔
گناہوں کی کثرت
آج اگر ہم اپنے حالات پر نظر ڈالیں اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا جائزہ لیں تو حقیقت یہ ہے کہ ایسی کوئی برائی نہیں جسے ہم نے من حیث القوم سینے سے نہ لگایا ہو۔ شرک و بدعات، توہمات اور خرافات، بے حیائی، فحاشی اور عریانی،ذخیرہ اور سود خوری، بددیانتی اور ، لوٹ اور قتل و غارت گری کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہم گم ہیں۔
سود کو قرآن نے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ قرار دیا ہے، لوگ اس کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہمارے دعوے ہیں کہ ہمیں خوشحالی اور ترقی اسی راستے پر چلنے سے ہی ملے گی۔
صورتِ حال یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی میں جیسے جیسے ہمارے قدم بڑھ رہے ہیں، بدتر سے بدترین نتائج ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ ہم بغیر سوچے سمجھے مغربی اَقوام کی طرزِ زندگی اپنانے کے چکر میں دھکے کھا رہے ہیں۔
ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کریں حقوق العباد کی ادائیگی کریں ظلم و انصافی سے بچیں عاجزی و انکساری سے بارش کے لیے دعا کریں۔
یا اللہ! ہمیں ایسی بارش عطا فرما جو نفع بخش ہو، نقصان دہ نہ ہو، جلد آنے والی ہو اور تاخیر سے نہ ہو۔
