دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

محبت کے پردے میں چھپا دین کا سودا

عنوان: محبت کے پردے میں چھپا دین کا سودا
تحریر: سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

علم ایک روشنی ہے۔ اور روشنی اگر کسی چوراہے پر لگے آئینے کی طرح پھیل جائے، تو ہر سمت کچھ نہ کچھ دکھاتی ہے۔ دین کی طرف آنے والے اکثر نوجوان جب نورِ علم کی طلب میں آتے ہیں، تو ان کا دل، آنکھ اور زبان سب کچھ خالص نیت سے سرشار ہوتا ہے۔ لیکن جب اس طلبِ علم کے راستے میں کچھ نرم لہجے، تعریفی جملے، دعاؤں کے دعوے، اور تم خاص ہو جیسے الفاظ آنے لگیں، تو یہی روشنی آنکھوں کو خیرہ بھی کر دیتی ہے۔

حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے مکہ کے کافروں کے ہاتھوں صلیب پر چڑھنے سے پہلے یہ نہیں کہا تھا کہ کسی سے دعائیں کرواؤ، بلکہ فرمایا:

وَاللهِ مَا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ فِي أَهْلِي وَمُحَمَّدٌ يُؤْذَى فِي مَكَانِهِ الَّذِي هُوَ فِيهِ (السیرۃ النبویۃ، ابن ہشام، ج۲، ص۵۰، دارالفکر بیروت)

ترجمہ: اللہ کی قسم! مجھے یہ بھی گوارا نہیں کہ میں اپنے اہلِ خانہ میں سکون سے رہوں اور میرے نبی ﷺ کو اذیت دی جائے!

اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کا رشتہ طلب کیا، تو یہ تعلق کسی رازداری یا تعریفی دعوت پر نہیں تھا، بلکہ رسول اللہ ﷺ کی اجازت، عدل، علم، اور حیاء پر قائم تھا۔ ان کا علم، ان کی شجاعت، ان کی گفتار کبھی کسی عورت کے جذبات سے نہیں ٹکرائی۔

آج کا المیہ یہ ہے کہ علم اور تبلیغ کے نام پر ذاتی روابط، روحانی تعلقات، اور ذہنی وابستگیوں کو ایسا بنا دیا گیا ہے کہ شاگرد، استاد کا گرویدہ، اور استاد، شاگرد کی توجہ کا طالب بن گیا ہے۔

استاد اب علم کا منبع نہیں، تعریفوں کا دریا بن گیا ہے۔ شاگرد اب ادب کا پیکر نہیں، خاص ہونے کی امید میں راہوں سے بھٹک چکا ہے۔ پیغام کچھ یوں ہوتا ہے: آپ بہت عظیم ہیں، آپ باقیوں سے مختلف ہیں، اور جب وہ طالبہ اپنی مختلف حیثیتوں کے سحر میں ڈوب جاتی ہے تو تعلق علمی سے نکل کر ذاتی ہو جاتا ہے۔

یہ آپ میری بہن جیسی ہو، میں آپ کا روحانی بھائی ہوں، یہ سب وہ جملے ہیں جو شیطان، کے لہجے سناتے ہوئے بولتا ہے۔ یہی وہ روش ہے جو آج کے کئی اداروں میں رائج ہے۔ جہاں حضرت کہنے والا، حیا چھین لیتا ہے؛ جہاں اسلامی بھائی کہنے والا، سچائی کے لبادے میں احساسات کا قاتل بن چکا ہے۔

یہی شاگردہ جب اپنی نجی دعاؤں کے لیے استاد سے رجوع کرتی ہے، یہی استاد جب آپ بہت مقدس ہیں کہتا ہے، تو دین کا سودا محبت کی زبان میں ہو جاتا ہے۔

حضرت زینب رضی اللہ عنہا، یزید کے دربار میں، زنجیروں کے ساتھ کھڑی تھیں، لبوں پر یہ جملے تھے:

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَكْرَمَنَا بِنَبِيِّهِ، وَطَهَّرَنَا مِنَ الرِّجْسِ تَطْهِيرًا (تاریخ الطبری، ج۴، ص۳۵۵، دارالتراث)

ترجمہ: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جس نے ہمیں اپنے نبی کے ذریعے عزت بخشی، اور ہمیں ہر قسم کی گندگی (ناپاکی) سے خوب پاک کیا۔

آج کی لڑکی، بےغیر کسی زنجیر کے، اپنے جذبات کی غلامی میں، سچائی سے محروم ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ وہ محترم ہے، جب کہ وہ صرف فہرست کا ایک اور نام ہے۔ ہر استاد کے پاس ایک خاص شاگردہ، ہر شیخ کے حلقے میں ایک نیک دعاؤں والی بہن، اور ہر گروپ میں ایک الگ قسم کی اسلامی لڑکی۔

یہ سب کچھ علم نہیں، نفس پرستی کی نئی شکل ہے۔ ایسی طالبات جب تنہائی میں استاد کی طرف سے توجہ پا لیتی ہیں، تو وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ علم کا مزہ، احترام میں تھا، تعلق میں نہیں۔ اور ایسے اساتذہ، جب بیٹیوں جیسے الفاظ بول کر بہنوں جیسے جذبات چھین لیتے ہیں، تو وہ علم کے وارث نہیں رہتے، وہ نفس کے نمائندے بن جاتے ہیں۔

حضرت خنساء رضی اللہ عنہا نے اپنے چار بیٹے اللہ کے راستے میں دیے، اور کہا:

الْـيَوْمَ أَفْرَحُ، لَقَدْ شُرِّفْتُ بِمَوْتِهِمْ فِي سَبِيلِ اللهِ (البدایہ والنہایہ، ابن کثیر، ج۷، ص۲۰۶)

ترجمہ: آج میں خوش ہوں، بے شک مجھے ان کے اللہ کے راستے میں شہید ہونے پر شرف حاصل ہوا ہے۔

وہ علم سے سرفراز تھیں، مگر تعریف کی طلب گار نہیں۔ تو اے طالباتِ دین! علم کے راستے میں اگر کسی کی نظر تمہیں الگ دیکھنے لگے،تو جان لو۔ وہ تمہارے علم کا خیرخواہ نہیں، تمہارے نفس کا شکاری ہے۔ ایسے ہر شخص سے بچو جو تمہیں تعریف سے لپیٹتا ہے،دعا کی آڑ میں گفتگو شروع کرتا ہے، اور تم خاص ہو کے ہالے میں تمہارا یقین لے ڈوبتا ہے۔

علم وہ ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کیا، نہ کہ وہ جو کسی مربی کے لمس، کسی شیخ کی نظر، یا کسی محترم بھائی کے جملوں میں تحلیل ہو جائے۔

یہ علم کی چادر ہے، دل کا لحاف نہیں۔یہ دین ہے، دل لگی نہیں۔یہ وراثتِ نبوت ہے، کوئی مجازی جذبہ نہیں۔

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔