دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

آقا ﷺ اگر بلائیں تو رکاوٹوں کی کیا مجال؟ (قسط ۱)

عنوان: آقا ﷺ اگر بلائیں تو رکاوٹوں کی کیا مجال؟ (قسط ۱)
تحریر: عائشہ رضا عطاریہ
پیش کش: مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد

قصد تھا اس شہر کا جسے عشاق شہر محبت کہا کرتے ہیں، جس کا سفر در حقیقت عشق رسولﷺ کا سفر ہوتا ہے۔ الحمدللہ زہے نصیب مدینے والے آقاﷺ نے نظر کرم فرمایا ،اورہم جیسے گناہگاروں کو اپنے مقدس در کی حاضری کا شرف عطا فرمایا ،یہ وہ بلاوا تھا، جس کا ہر امتی انتظار کرتا ہے، مگر اللہ پاک نے اس مبارک سفر میں صبر، استقامت اور محبت کی کچھ آزمائشیں بھی رکھ دی تھیں۔ ہم دونوں میاں بیوی کے لیے یہ سفر محض ایک زیارت نہ تھی، بلکہ عشق و عقیدت کا وہ امتحان تھا، جو ہر عاشقِ رسولﷺ کی زندگی میں کبھی نہ کبھی آتا ہے جیسے ہی خبر ملی کہ مدینہ کی حاضری نصیب ہو رہی ہے، تو آنکھوں میں خوشی کے آنسو، زبان پر شکر کے کلمات، اور دل نے بے پناہ خوشی اور سکون محسوس کیا۔

ہمیں یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ حقیقت ہے یا پھر ایک خواب، پر ذہن میں بار بار یہ اشعار خاموشی کے ساتھ گونج رہے تھے: کہ آقا جان! ﷺ

میں آؤں مدینے میری اوقات نہیں ہے
گر آپ بلا لیں تو بڑی بات نہیں ہے

منگل کا دن تھا (12 نومبر 2024) فضاؤں میں ایک عجب سی طمانیت اور سکون گھلا ہوا تھا۔ ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد ہم نے شکرانے کے طور پر دو رکعت نفل ادا کیے۔ دل جیسے عاجزی، شکرگزاری اور خوشی کے جذبات سے لبریز تھا۔

ہم نے اپنے بچوں کے ساتھ مل کر سفر کی تمام تیاریاں الحمدللہ پوری طرح سے مکمل کرلیں تھیں، اور اب وہ گھڑی آ چکی تھی جس کا برسوں سے انتظار تھا۔ جب ہم گھر سے روانہ ہونے لگے، تو دل کی کیفیت الفاظ میں بیان کرنے سے باہر تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی خواب حقیقت کا روپ دھار چکا ہو، جیسے دعائیں آسمان سے اتر کر ہماری جھولی میں آ گری ہوں۔

ہر قدم کے ساتھ خوشی کی شدت بڑھتی جا رہی تھی، اور دل بار بار الحمدللہ کہہ کر ربّ کے حضور جھک رہا تھا۔

شکر خدا کہ آج گھڑی اس سفر کی ہے
جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے

ہماری خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ ہمارے ساتھ ساتھ ہمارے تینوں بچے بھی بےحد خوش تھے، پر کہیں نہ کہیں افسردہ بھی تھے۔ ایک بیٹی ( 13 سال)، ایک بیٹا (11 سال)، اور سب سے چھوٹا بیٹا (4 سال)۔ تینوں کو مدینۂ منورہ کی حاضری کا بے پناہ جزبہ وشوق تھا، پر ابھی ان کا بلاوا نہیں تھا، تینوں بہت زیادہ خوش بھی تھے۔ اور غمگین بھی، مگر الحمدللہ ان کے چہروں پر خوشی کے آثار صاف طور پر نمایاں نظر آ رہے تھے۔

تقریباً دو بجے ہم اپنی رہائش گاہ (تروبرو ،آندھرا پردیش) سے ( بجےباڑا) اسٹیشن کے لیے روانہ ہو گئے ،الحمدللہ مقررہ وقت پر ہم اسٹیشن پہنچ گئے، دہلی جانے کے لیے شام پانچ بجے ٹرین میں سوار ہوۓ۔ سفر کا آغاز دعاؤں کے ساتھ ہوا، دل میں بس یہی خیال بار - بار گردش کر رہا تھا کہ چند گھنٹوں بعد ہم اس مقدس سرزمین کے لیے روانہ ہوں گے، جہاں ہر دل کو سکون ملتا ہے۔ دہلی پہنچ کر ہمیں بچوں کو ان کی نانی کے سپرد کرنے کے بعد مکہ مکرمہ کے سفر پر روانہ ہونا تھا۔

بچوں کے والد صاحب کی خوشی تو قابل دید تھی۔ ان کی آنکھوں میں تشکر اور خوشی کے آنسو، لبوں پر تبسم کے ساتھ رب کریم کا شکر، اور دل میں سکون کی ایک ان کہی کیفیت موجود تھی۔ اللہ ربّ العزت نے ان کی برسوں کی دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخشا، اور وہ دلی تمنا جو مدتوں سے دل میں پل رہی تھی، بالآخر پوری ہو گئی۔

وہ ہمیشہ ربّ کریم سے یوں فریاد کرتے تھے: یا اللہ! جب کبھی مجھے تیرے دربارِ اقدس میں حاضری کا موقع عطا ہو، تو میرے والدین میرے ساتھ ہوں۔ ادھر اُن کی والدہ بھی اکثر سجدوں میں گرکر، لرزتے ہونٹوں، اور نم آنکھوں کے ساتھ اپنے ہاتھوں کو دراز کر کے اپنے رب العالمین سے دعائیں مانگتیں: “اے پروردگار! جب بھی میں تیرے مقدس گھر کا طواف کروں، میرا بیٹا میرے ساتھ ہو۔

پھر وہ لمحہ بھی آ گیا جس لمحہ کا ماں اور بیٹے دونوں کو شدت سے انتظار تھا۔ ایک طرف بیٹا اپنے ربّ کے حضور ہاتھ بلند کیے، دل سے ماں کے ساتھ مکہ معظمہ کی حاضری کی دعائیں مانگ رہا تھا۔ دوسری جانب ماں، اپنے آنچل کو پھیلائے، آنکھوں میں امید، لبوں پر التجا لیے، اپنے بیٹے کے ساتھ حاضری کی بھیک مانگ رہی تھی۔

ایسا لگا جیسے ماں کے دل سے نکلی ہوئی دعا عرشِ الٰہی سے جا ٹکرائی، اور ربِ کریم کا دریائے رحمت میں جوش آ گیا۔ خالقِ کائنات نے ماں بیٹے کی التجاؤں کو شرفِ قبولیت عطا فرمایا، اور دونوں کو اپنے پاک گھر بیت اللہ شریف کی حاضری کا عظیم شرف عطا فرما دیا۔

واہ! کیسا مقدس اور دل کو چھو لینے والا منظر تھا! ادھر بیٹے کی خوشی بے قابو تھی، جیسے دل میں بسا خواب حقیقت بن کر سامنے آ گیا ہو۔ اور اُدھر والدین خوشی سے لبریز، سجدۂ شکر میں جھکے جا رہے تھے۔ ماشاءاللّٰہ! وہ لمحے ایسے تھے جنہیں صرف روح محسوس کر سکتی تھی، زبان بیان کرنے سے قاصر، اور قلم اظہار سے عاجز تھا۔

واہ! کیا نظارہ تھا اس مبارک سفر کا، ادھر بیٹے کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں ادھر والدین خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ رات کا وقت تھا، ہم ٹرین میں سوار ہو چکے تھے سفر جاری تھا ،ہم سب اپنی ـاپنی سیٹ پر آرام سے لیٹ گۓ پتہ ہی نہیں چلا کہ کب ہم نیند کی گہری وادیوں میں کھو گئے ،تھکان کی وجہ سے جلدی ہی نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔

رات کے دو بج رہے تھے اچانک بڑے بیٹے نے ہمیں جھنجھوڑ کر نیند سے بیدار کیا اور کہا کہ ٹرین ایک جگہ پر رکی ہوئی ہے۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ ( مہاراشٹر) بلہار شاہ " مقام پر ہمارے آگے چلنے والی مال گاڑی پٹری سے اتر گئی ہے۔ یہ خبر سنتے ہی دل دھک سے ہو کر رہ گیا، کیونکہ راستہ مکمل طور پر بند ہو چکا تھا! اب سوچنے لگے، کہ کیا کریں؟ کیسے دہلی پہنچیں؟ ہماری دہلی سے جمعرات (14 نومبر)کی صبح 5 بجے کی فلائٹ تھی، اور ہم پھنس چکے تھے! تقریباً دو گھنٹے ٹرین وہیں کھڑی رہی سبھی ٹرین میں سوار لوگ حیران و پریشان تھے کہ اب کیا کریں، بدن لرزنے لگا، آنکھوں سے اشک رواں ہونے لگے، جیسے امیدیں دم توڑنے لگی ہوں۔

وقت گزرتا جا رہا تھا، لیکن کوئی حل نظر نہیں آ رہا تھا۔ ہم دونوں میاں بیوی بہت زیادہ بےچین تھے، آنکھوں میں اشک، دل میں اضطراب، لیکن زبان پر صرف دعا تھی۔ یہ سوچ کر دل غمگین ہوا جارہا تھا کہ ہم مدینہ شریف نہیں جا پائیں گے، شاید ہم اس قابل نہیں، لیکن ساتھ ہی یقین بھی تھا کہ جسے آقا ﷺ بلاتے ہیں، اسے کوئی روک نہیں سکتا۔

مدینے پاک سے جو لوگ لو لگاتے ہیں
خود اپنے در پر انھیں مصطفیٰ بلاتے ہیں

کوششیں جاری تھیں کہ کسی نہ کسی طرح ٹرین کو کسی متبادل راستے سے دہلی پہنچایا جائے۔ بالآخر فیصلہ ہوا کہ ٹرین کو پیچھے کی طرف موڑ کر دوسرے راستے سے دہلی روانہ کیا جائے۔ چنانچہ ٹرین نے اپنا سفر دوبارہ شروع کیا، لیکن کچھ ہی دور چلنے کے بعد مناسب راستہ نہ ملنے کی وجہ سے ایک مقام مہاراشٹر کے ناندیڑ پر دوبارہ رک کر کھڑی ہو گئی۔ وہاں تقریباً ایک گھنٹے تک کھڑی رہی، اب مسافروں کی بے چینی مزید بڑھنے لگی۔

ہماری پریشانی میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ بالآخر ہم نے فیصلہ کیا کہ ٹرین سے اتر کر فلائٹ کے ذریعے دہلی پہنچنے کی کوشش کریں۔ہم نے فوری طور پر فلائٹ کی ٹکٹیں بک کیں، اور ناندیڑ (مہاراشٹر) اسٹیشن پر ٹرین سے اتر کر ناگپور ایئرپورٹ جانے کے لیے فوراً ایک گاڑی بک کروائی۔ تقریباً ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد جب گاڑی آ پہنچی تو ہم فوراً سوار ہو کر ناگپور ایئرپورٹ کی جانب روانہ ہو گئے۔

جب بچوں کو معلوم ہوا کہ اب وہ دہلی ٹرین سے نہیں بلکہ فلائٹ کے ذریعے جائیں گے تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ جیسے ہی انہیں یہ خبر ملی کہ وہ فلائیٹ میں سفر کریں گے، خوشی اور جوش کے مارے ان کا حال دیدنی تھا۔ تینوں بچے خوشی سے اچھل پڑے۔ آخر بچے تو بچے ہوتے ہیں، چھوٹے چھوٹے معصوم دلوں کو کیا خبر کہ حالات کیا رخ اختیار کر رہے ہیں۔

انہیں تو بس فلائٹ میں بیٹھنے کی خوشی تھی، کیونکہ یہ ان کا پہلا فضائی سفر تھا۔ ان کے پھول جیسے خوبصورت چہروں پر سجی معصوم سی مسکراہٹ نے ہمارا دل جیت لیا، (13 نومبر) بدھ کا دن بھی ہمارا بےچینی اور اضطراب میں گزرا نہ کچھ کھانے کا ہوش رہا، نہ آرام کا خیال۔ دل و دماغ پر بس ایک ہی دعا چھائی ہوئی تھی:

یا اللہ! ہم گناہگاروں کو اپنے در پر اور اپنے محبوب ﷺ کے در پر بلا لے!

ناگپور پہنچ کر پہلے ایک ڈھابے پر بچوں کو کھانا کھلایا اور اس کے بعد ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہو گئے۔ ایئرپورٹ پہنچنے کے بعد ہم اب پُرسکون ہو چکے تھے کہ ان شاء اللہ عزوجل، اب وقت پر دہلی پہنچ جائیں گے۔ دل ہی دل میں اللہ پاک کا شکر ادا کیا، لیکن ابھی ایک اور امتحان ہمارا منتظر تھا۔

ہماری فلائٹ رات 9 بجے کی تھی، مگر وہ تاخیر کا شکار ہو کر 10 بجے کی ہو گئی، اس کے باوجود ہم مطمئن تھے۔ لیکن جب 10 بجے کا وقت آیا تو معلوم ہوا کہ فلائٹ مزید تاخیر سے اب 12 بجے روانہ ہوگی! یہ سن کر دل مزید پریشان ہو گیا، بدن کانپنے لگا، آنکھوں میں اشک تیرنے لگے، اور امیدیں بکھرتی نظر آنے لگیں۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔