✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
قارئین سے گزارش ہے کہ کسی بھی مضمون میں کسی بھی طرح کی شرعی غلطی پائیں تو واٹسپ آئیکن پر کلک کرکے ہمیں اطلاع کریں، جلد ہی اس کی اصلاح کردی جائے گی۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا 🥰

اسلام کی شیر دل خاتون

عنوان: اسلام کی شیر دل خاتون
تحریر: ساریہ فاطمہ رضویہ
پیش کش: مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد

جب ہم اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں مرد حضرات نے فی سبیل اللہ اپنے مال و جان اور اولاد کو قربان کیا، محبت رسول ﷺ میں قسم قسم کے مصائب و آلام برداشت کیے، وہیں اسلام کی چند ایسی خواتین بھی گزری ہیں جنھوں نے اپنی ہمت اور بہادری کے جوہر دکھائے۔ اور مردوں کے مقابلے میں انھوں نے بھی بڑھ چڑھ کر قربانیاں پیش کیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں کمزور اور نازک دل ہوتی ہیں۔ لیکن ہمارے اسلام کی ان مقدس اور شیر دل خواتین نے ثابت کیا کہ ہم بھی اپنا مال و دولت، اپنی اولاد اور اپنا کنبہ حتٰی کہ اپنی جان بھی اسلام کے دفاع کے لیے قربان کر سکتے ہیں۔

میں انھیں شیر دل خواتین میں سے ایک ایسی عظیم ہستی کی بات کررہی ہوں۔ جن کی مناقب و فضیلت کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ آپ صحابیۂ رسول ﷺ ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی آپ ایک بہادر اور جری خاتون تھیں۔ آپ اپنی بہادری اور دلیرانہ عمل سے اسلام کے تمام مجاہدین میں اپنا نام سر فہرست کروا لی تھیں۔ آپ کی ہمت و شجاعت اور جذبۂ شہادت اپنی مثال آپ ہے جسے رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

اس مقدس ہستی کا نام صحابیۂ رسول ﷺ حضرت ام عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے ایک مرتبہ یہ جنگ احد میں اپنے شوہر حضرت زید بن عاصم اور اپنے دو بیٹوں حضرت عمارہ اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنھم کو ساتھ لے کر میدان میں کود پڑیں۔ اور جب کفار نے آقا کریم ﷺ پر حملہ کردیا تو آپ ایک خنجر لے کر کفار کے مقابلے میں کھڑی ہو گئیں اور کفار کے تیر و تلوار کے ایک ایک وار کو روکتی رہیں یہاں تک کہ جب ابن قمیہ ملعون نے آقا کریم ﷺ پر تلوار چلادی تو حضرت ام عمارہ نے اس تلوار کو اپنے پیٹھ پر روک لیا چنانچہ ان کے کندھے پر اتنا گہرا زخم لگا کہ غار پڑگیا۔ پھر خود آگے بڑھ کر ابن قمیہ کے کندھے پر اس زور سے تلوار ماریں کہ وہ دو ٹکڑے ہو جاتا مگر وہ ملعون دوہری ذرہ پہنے ہوئے تھا اس لیے بچ گیا۔

اس جنگ میں حضرت ام عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سر و گردن پر تیرہ زخم لگے تھے۔ حضرت ام عمارہ کے فرزند حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے ایک کافر نے جنگ احد میں زخمی کردیا اور میرے زخم سے خون بند نہیں ہوتا تھا میری والدہ حضرت ام عمارہ نے فوراً اپنا کپڑا پھاڑ کر باندھ دیا۔ اور کہا: کہ بیٹا اٹھو، کھڑے ہو جاؤ اور پھر جہاد میں مشغول ہو جاؤ۔ اتفاق سے وہی کافر سامنے آگیا تو آقا کریم ﷺ نے فرمایا اے ام عمارہ دیکھ تیرے بیٹے کو زخمی کرنے والا یہی ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت ام عمارہ نے جھپٹ کر اس کافر کی ٹانگ میں تلوار کا ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ وہ کافر گر پڑا۔ اور پھر چل نہ سکا بلکہ سرین کے بل گھسٹتا ہوا بھاگا۔ یہ منظر دیکھ کر آقا کریم ﷺ نے فرمایا اے ام عمارہ! تو خدا کا شکر ادا کر کہ اس نے تجھ کو اتنی طاقت اور ہمت عطا فرمائی کہ تونے خدا کی راہ میں جہاد کیا۔

حضرت ام عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ! آپ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو جنت میں آپ کی قربت کا شرف عطا فرمائے۔ اس وقت آپ نے ان کے لیے اس طرح دعا فرمائی: اللهم اجعلھم رفقائی فی الجنة (یا اللہ! ان سب کو جنت میں میرا رفیق بنادے۔) حضرت ام عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا زندگی بھر اعلانیہ یہ کہتی رہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی اس دعا کے بعد دنیا میں بڑی سے بڑی مصیبت بھی مجھ پر آجاۓ تو مجھ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ *( مدارج النبوۃ جلد ٢ ص ١٢٦)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج ہماری قوم و ملت کی خواتین کے اندر یہ جذبہ کیوں نہیں ہے؟ آج ہم بزدلی کے شکار کیوں ہیں؟ حضرت ام عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تو ایک خاتون تھیں۔ تو ان کے دل میں اس قدر جذبہ شہادت، دلیری، اور بہادری کہاں سے آئی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کے دل میں فی سبیل اللہ اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ تھا۔ آقا کریم ﷺ کی محبت ان کے قلوب و اذہان میں رچ بس گئی تھی۔ جس کے سبب وہ اپنی زندگی کے ہر طوفان سے لڑنے کا حوصلہ رکھتی تھیں۔ ان جیسی بہادر، جری اور شیر دل خواتین کے آغوش میں اسلام کے مجاہدین پروان چڑھیں۔ اور اسلام کے دفاع پر اپنی جان قربان کر دیں۔

لیکن آج ہماری قوم و ملت کی خواتین کا حال اس کے بالکل برعکس ہے آج کی مائیں ہی اسلام کی تاریخ سے نا آشنا ہیں، ہمارے اسلاف کی سیرت پاک سے وہ خود نا واقف ہیں۔ آج کی خواتین اگر اپنا کوئی بہت عزیز کھو دیں تو سارے خاندان اور اپنے پڑوسیوں کو اکٹھا کر کے واویلا کرنے لگتی ہیں۔ اور اس قدر غلو کر جاتی ہیں کہ بعض اوقات وہ شریعت کے حدود کو پار کر جاتی ہیں اور انھیں خبر تک نہیں ہوتی۔

تو ایسی خواتین کی آغوش میں بھلا کیسے کوئی مجاہد اور بہادر جنم لے سکتے ہیں ؟ آج ضرورت ہے کہ ہم اپنے اسلاف اور اسلام کی مجاہدہ اور مقدس خواتین کی زندگی کے ایک ایک گوشے کو پڑھیں، سمجھیں اور اپنے اندر جذبۂ شہادت کو بیدار کریں۔ حضرت ام عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جیسی خاتون کو اپنے زندگی کا رول ماڈل بنائیں۔ تاکہ آپ کے اندر ہمت و جرأت اور جذبۂ شہادت کی حرارت پیدا ہو۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں