| عنوان: | آخر موت ہے! |
|---|---|
| تحریر: | عالیہ فاطمہ انیسی |
| پیش کش: | مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد |
دن بھر کی بھاگ دوڑ، وہی روز مرہ کا معمول کل، پرسوں، اگلے ہفتے، اگلے مہینے۔ لیکن کبھی ایک لمحے کو رُک تنہائی میں سوچا ہے؟ کبھی خود سے پوچھا ہے کہ یہ دنیاوی دوڑ، یہ شہرت کی تلاش، یہ مال و دولت کا پیچھا آخر کب تک؟ کب تک اپنے نفس کی پیروی کرتے رہو گے؟ کب تک دل کو دنیا کی فانی خوشیوں سے بہلاتے رہو گے؟
اے انسان! ایک لمحے کو ٹھہر جا، اور اپنے دل سے ایک سوال کر کیا تو موت کے لیے تیار ہے؟ ہم میں سے ہر ایک زندگی کے خوابوں میں کھویا ہوا ہے۔ تعلیم مکمل ہوگی، پھر نوکری، پھر شادی، پھر بچے، پھر گھروار کی ذمّے داری۔ ایک نہ ختم ہونے والا خاکہ ہم اپنے ذہن میں کھینچتے ہیں لیکن اس خاکے میں ایک شے اکثر غائب ہوتی ہے "موت"
جی وہی موت جو نہ بوڑھے کو چھوڑتی ہے، نہ جوان کو۔ نہ امیر کے محل کی دیواریں اسے روک سکتی ہیں، نہ غریب کی جھونپڑی اسے چھپا سکتی ہے۔ وہ ہر ایک کو آتی ہے، وقت سے پہلے نہیں، وقت کے بعد نہیں عین وقت پر۔ اور اے ناداں! تو نہیں جانتا وہ وقت کون سا ہے۔
پھر بھی تو لاپروائی کی نیند میں سو رہا ہے۔ تو سمجھتا ہے کہ ابھی وقت ہے، ابھی کچھ سال باقی ہیں، ابھی کچھ گناہ اور، ابھی کچھ خواب اور..........
لیکن کیا تو جانتا ہے؟ کہ ایک پل کے بعد تیری آنکھ ہمیشہ کے لیے بند ہو سکتی ہے؟ کیا تو اس دن کے لیے کچھ لے کر آیا ہے؟ کیا نمازیں پوری تھیں؟ کیا گناہوں پر شرمندگی تھی؟ کیا حقوق العباد ادا کیے؟ کیا کچھ صدقہ جاریہ کیا؟ کیا تجھے یاد ہے وہ دن جب قبر تجھے آواز دے گی۔ اے غافل انسان! تو اس کی آواز کو ان سنا نہیں کر سکتا۔
اے بنی آدم! ہم یہی سمجھتے ہیں کہ موت بوڑھوں کے لیے ہے، بیماروں کے لیے ہے۔ لیکن موت کی فہرست میں عمر نہیں دیکھی جاتی، صحت نہیں دیکھی جاتی، بس حکم الٰہی ہوتا ہے اور ایک پل میں سب ختم، سارے خواب مٹی ریز۔
آج ہم پلاننگ کرتے ہیں اگلے ہفتے فلاں کام ہوگا، اگلے سال شادی، کریئر، ٹور، میٹنگ جانے کیا کیا سوچتے ہیں۔ ذرا ان سوچوں سے نکل کر سوچ! کیا یہ سب تیرے اختیار میں ہے؟ کیا تو اپنے اگلے سانس کا بھی مالک ہے؟
اے دل ناداں! اب بھی وقت ہے، مان جا، توبہ کر لے، اپنے رب کو منا لے، کچھ اعمال صالحہ کر لے، کچھ صدقہ جاری کر لے، لوگوں کے دل نہ دکھا، اپنے نفس کو قابو میں رکھ، اور آخرت کی تیاری کر۔
یاد رکھ! قبرستان ان لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو کل کی صبح دیکھنے کی امید رکھتے تھے۔ اب بھی وقت ہے، اپنے اعمال سنوار لے، سچے دل سے معافی مانگ لے، کچھ آنسو یاد الٰہی میں بہا لے، کچھ مال راہ خدا میں خرچ کر دے۔ کیونکہ موت اچانک آتی ہے اور موقع نہیں دیتی، دروازہ کھٹکھٹاتی ہے، نہ اطلاع دیتی ہے۔ وہ آتی ہے، بس اچانک آتی ہے اور سب کچھ خاموش کر دیتی ہے۔
اوڑھ کر مٹی کی چادر بے نشاں ہو جائیں گے
ایک دن آئے گا ہم بھی داستاں ہو جائیں گے
اسْتَغْفِرُ اللَّهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ
