عنوان: | کتاب کی پی۔ ڈی۔ ایف۔ مل سکتی ہے؟ |
---|---|
تحریر: | عالیہ فاطمہ انیسی |
پیش کش: | مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد |
کوئی کتاب تصنیف کرنا صرف چند الفاظ یا جملوں کا مجموعہ نہیں ہوتا، بلکہ ان الفاظ میں ایک مصنف کی مسلسل محنت، وسیع مطالعہ، دن و رات کی قربانیاں، اور فکری ریاضت پوشیدہ ہوتی ہے۔
ایک مصنف ہزاروں کتابوں کو کھنگالتا ہے، اپنے علم کو الفاظ میں ڈھالتا ہے، اپنی فکر، تجربہ اور مشاہدے کو صفحۂ قرطاس پر اتارتا ہے۔ اور صرف یہی نہیں، بلکہ اس کے بعد اشاعت کے اخراجات، پروف ریڈنگ، ترتیب و تزئین، اور دیگر مسائل کا بوجھ بھی برداشت کرتا ہے۔ تب جا کر کہیں ایک کتاب منصۂ شہود پر آتی ہے، جو عوام کی ہدایت، بصیرت کے فروغ، اور علم میں اضافے کا ذریعہ بنتی ہے۔
مگر افسوس! جب وہ کتاب منظرِ عام پر آتی ہے تو بعض قارئین کی زبان پر پہلا سوال یہی ہوتا ہے: "کتاب کی پی۔ ڈی۔ ایف۔ مل سکتی ہے؟"
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ یہ سوال کتنا سفاک ہے؟ یہ صرف ایک سوال نہیں، بلکہ اس جملے میں مصنف کی محنت کی بے قدری، اور فکری قلاش پن اور علم سے بے رغبتی چھپی ہوتی ہے۔
ذرا سوچیں! وہ کتاب جو انسان کے شعور کو جِلا بخشتی ہے، سوچ کو وسعت دیتی ہے، اور قلب و ذہن کو وہ روشنی عطا کرتی ہے جس سے انسان، انسان بنتا ہے۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے تو ہمارے اندر جنون ہونا چاہیے۔
ایک خریدی ہوئی کتاب قاری کو صرف مواد ہی فراہم نہیں کرتی، بلکہ اس کے ساتھ ایک احساس وابستگی بھی پیدا کرتی ہے۔ قاری اس کی ورق گردانی کرتا ہے، نوٹس بناتا ہے، کہیں نشان لگاتا ہے، اور اکثر اسے دوبارہ پڑھنے کے لیے سنبھال کر رکھتا ہے۔ اور اس سے ایک الگ محبّت وابستہ ہو جاتی ہے۔
اس کے برعکس، ایک مفت میں لی گئی پی ڈی ایف اکثر کسی فولڈر میں بھلا دی جاتی ہے، نہ کبھی پوری پڑھی جاتی ہے، نہ یاد رکھی جاتی ہے۔
ہارڈ کاپی میں مطالعہ کرنے کے چند فوائد
1- خریدار کتاب کو ضائع کرنے کے بجائے قدر سے پڑھتا ہے۔
2- مطالعہ میں تسلسل آتا ہے۔ موبائل کی اسکرین کے بجائے ہاتھ میں کتاب ہو تو ذہن کم بھٹکتا ہے۔
3- ہارڈ کاپی کا مطالعہ موبائل یا لیپ ٹاپ کی چمکتی اسکرین کے مقابلے میں صحت بخش ہوتا ہے۔
4- نوٹس بنانے، نشان لگانے کی سہولت ہوتی ہے۔ کتاب کو ذاتی بنانا اور اس پر کام کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
5- ادبی ذوق پروان چڑھتا ہے۔ کتاب کی خوشبو، اس کے صفحات کی جُھرجھراہٹ، قاری کو ایک تعلق کا احساس دیتی ہے۔
6- کتاب ہمیشہ کے لئے ہمارے پاس محفوظ ہو جاتی ہے۔ ہماری لائبریری کی زینت بنتی ہے۔
آج کل ہمارا حال یہ ہے کہ ہم مہنگے فونز خرید سکتے ہیں، ہزاروں خرچ کر کے برینڈڈ کپڑے اور مہنگا میک اپ حاصل کرتے ہیں، اپنی ہر دنیاوی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہر طرح کی تدبیریں اور قربانیاں دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ لیکن جب بات کتابیں خریدنے کی آتی ہے تو اچانک ہمارے بجٹ میں تنگی آ جاتی ہے۔
ہماری ترجیحات نے ہمیں بتا دیا ہے کہ ہم نے کتابوں کو اصل ضرورت نہیں بلکہ ڈگریاں حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ لیا ہے۔ سوچنے والی بات ہے جو شخص اپنی ظاہری خوبصورتی پر ہزاروں خرچ کر سکتا ہے، کیا وہ باطن سنوارنے والی تحریر کو چند سو روپے کا حق بھی نہیں دے سکتے؟
جب سے ہم نے ظاہر کو خوبصوت بنانے والی اشیاء کو باطن سنوارنے والے لوازمات پر ترجیح دینا شروع کر دیا، نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے ہاتھوں میں خوبصورت ڈگریاں، اور ہمارے ناموں پر عمدہ القابات تو لگ گئے، مگر افسوس! ہماری باطنی آنکھ شعور کی روشنی سے محروم ہونے لگی۔
ہمارے تعلیم یافتہ ہونے کا کوئی مطلب نہیں اگر ہمارے وارڈروب (Wardrobe) میں سجے کپڑوں اور جوتوں کی قیمت ہماری لائبریری میں موجود کتابوں سے زیادہ ہے۔
کتابیں خریدیں! کتابیں بانٹيں! تاکہ مصنف کی محنت رائیگاں نہ جائے، تاکہ علم کی روشنی پھیلے، تاکہ آپ صرف قاری نہ رہیں، بلکہ علم کے قدردان بھی بنیں۔