| عنوان: | محرم اور صبر |
|---|---|
| تحریر: | شاھین فاطمہ امجدی |
| پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
اسلامی سال کا آغاز جس مہینے سے ہوتا ہے، وہ محرم الحرام ہے، یہ مہینہ صبر اور قربانی کا درس دیتا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے اُس عظیم قربانی کی جو نواسۂ رسول ﷺ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور اُن کے اہلِ بیت اطہار نے حق کے لیے دی۔ آئینہ قیامت میں ایسے کئی واقعات درج ہیں جو ہمیں جگر پاش صبر کی انتہاؤں سے آشنا کرتے ہیں، اور ہمارے دل کو جھنجھوڑ کر یہ پیغام دیتے ہیں کہ باطل کے سامنے جھکنے کے بجائے قربان ہو جانا بہتر ہے۔
کربلاصبر کی وہ سرزمین جس پر تاریخ خاموش ہوگئی۔
کربلا کوئی عام میدان نہیں تھا، یہ وہ مقام تھا جہاں سچائی اور جھوٹ کی جنگ اپنے عروج پر تھی۔یزید کی بیعت نہ کرنا صرف انکار نہیں تھا، بلکہ اسلامی اقدار کی حفاظت کا فیصلہ کن لمحہ تھا۔امام حسین رضی اللہ عنہ نے مدینہ سے کربلا کا سفر صرف اپنے نانا کے دین کے تحفظ کے لیے کیا۔ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو یزید سے خلافت کے معاملہ میں بیعت کرنے کا پیغام پہنچا تو انہوں نے یہ نہیں فرمایا کہ میں حسین رسول اللہﷺ کا نواسہ یزید فاسق و فاجر کی بیعت کروں گا؟ بلکہ آپ نے فرمایا کہ مثلی لا یبایع لمثلہ مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔
یہ الفاظ ہی اس انقلاب کی بنیاد تھے جس کا نقطۂ عروج کربلا کی خاک پر شہادت کی صورت میں نمودار ہوا۔ دل دہلا دینے والا منظر: حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ کی شہادت کو تاریخ کی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے جو کسی بھی ذی شعور دل کو لرزا دیتا ہے۔ نویں محرم کو جب پانی بند ہو چکا تھا، اور خیموں میں پیاس کی شدت تھی، امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے چھ ماہ کے لعل حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ کو گود میں اٹھایا اور دشمن کے سامنے پیش ہو کر فرمایا:
اگر مجھ پر رحم نہیں کرتے، تو اس معصوم پر رحم کرو! لیکن جواب میں حرملہ بن کاہل نے تین شاخوں والا زہریلا تیر مارا، جو علی اصغر رضی اللہ عنہ کے حلق کو چھیدتا ہوا امام عالی مقام کے بازو میں بیٹھ گیا۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے وہ تیر کھینچا خون کا فوارہ پھوٹ پڑا امام حسین رضی اللہ عنہ نے معصوم کے خون کو ہاتھوں پر لیا، آسمان کی طرف اچھالا، اور فرمایا:
اللَّهُمَّ إِنِّي أُشْهِدُكَ عَلَى هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ (تاریخ طبری ابن جریر طبری، جلد ۵، صفحہ۴۲۰)
ترجمہ: اے اللہ جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں اس پر میں تجھے گواہ بناتا ہوں۔
آسمان نے بھی اس خون کو قبول نہ کیا، اور زمین نے بھی اسے نگلنے سے انکار کر دیا۔ پھر فرمایا:
اللَّهُمَّ احْكُم بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ دَعَوْنَاهُمْ لِيَنْصُرُونَا فَقَتَلُونَا (الطبری، جلد ۵، صفحہ ۴۵۲)
ترجمہ: اے اللہ! ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان فیصلہ فرما جنہوں نے ہمیں مدد کے لیے بلایا اور پھر قتل کیا۔
یہ وہ لمحہ تھا جہاں ایک باپ، نبی کا نواسہ، دین کی بقا کے لیے اپنے بچے کو اللہ کی راہ میں قربان کر رہا تھا اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا صبر
امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے یزید کے دربار میں جب سب کی نگاہیں ان پر تھیں، تو ان سے سوال ہوا: میں اے زینب! کربلا میں تم نے کیا دیکھا؟ تو جواب آیا: ما رأيت إلا جميلاً میں نے وہاں بس خوب صورتی دیکھی (نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار ﷺ، صفحہ ۱۵۰)
یہ الفاظ ایک ایسی صبر و رضا کی مثال ہیں جو صرف اللہ کی رضا کے لیے جیتی ہے۔ یہ وہ عورت تھی جو بھائیوں، بیٹوں اور بھتیجوں کو قربان کر چکی تھی، مگر زبان پر شکوہ نہیں، صرف رب کی رضا کا ذکر تھا۔
قرآن کریم میں رب ذوالجلال ارشاد فرماتا ہے:
وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ (البقرہ:۱۵۵)
ترجمۂ کنزالایمان: اور خوش خبری سنا ان صبر والوں کو۔
کربلا کے ہر شہید نے صبر کا ایسا عملی مظاہرہ کیا جو صدیوں تک زندہ رہے گا۔ صبر صرف خاموشی نہیں، بلکہ کردار کی وہ بلندی ہے جو امام حسین رضی اللہ عنہ، حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ، اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور تمام اہل بیت اطہار کے اندر نظر آتی ہے۔ یہ ہمیں پیغام دیتا ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ایمان سلامت رہے، تو ہمیں بھی وقت کے یزید کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ چاہے قیمت جان ہی کیوں نہ ہو۔
اے اللہ! ہمیں کربلا والوں کے صبر، ان کے ایمان، اور ان کے جذبے کی کچھ جھلک عطا فرما، تاکہ ہم حق پر ڈٹے رہیں، اور باطل سے نہ ڈریں۔ آمین یا رب العالمین۔
