دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

حضورِ انور ﷺ کے شمائل وخصائل (قسطِ 1)

عنوان: حضورِ انور ﷺ کے شمائل و خصائل (قسطِ 1)
تحریر: محمد فرقان رضا حنفی
پیش کش: جامعہ عربیہ انوارالقرآن، بلرام پور



(1500 سالہ جشنِ عید میلاد النبی ﷺ کی خصوصی پیشکش)

حضور اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح کمالِ سیرت میں تمام اوّلین وآخرین سے ممتاز اور افضل واعلیٰ بنایا، اسی طرح آپ کو جمالِ صورت میں بھی بے مثل وبے مثال پیدا فرمایا۔ ہم اور آپ حضور ﷺ کی شانِ بے مثالی کو بھلا کیا سمجھ سکتے ہیں؟ حضراتِ صحابہ کرام (علیہم الرضوان) جو دن رات، سفر وحضر میں جمالِ نبوّت کی تجلیاں دیکھتے رہے، انہوں نے محبوبِ خدا حضور سیدِ عالم ﷺ کے جمالِ بے مثال کے فضل وکمال کی جو مصوّری کی ہے، اُس کو سُن کر یہی کہنا پڑتا ہے کہ جو کسی مداحِ رسول نے کیا خوب کہا ہے کہ

لٙمْ یٙخْلُقِ الرّٙحْمٰنُ مِثْلٙ مُحٙمّٙدِِ
اٙبٙدٙٙا وّٙعِلْمِیْ اٙنّٙہ لٙا یٙخْلُقْ

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کا مثل پیدا فرمایا ہی نہیں اور میں یہی جانتا ہوں کہ وہ کبھی نہ پیدا کرے گا۔

علامہ امام بوصیری رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے قصیدۀ بُردہ شریف میں فرمایا:

مُنٙزّٙہُ عٙنْ شٙرِیْکِِ فِیْ مٙحٙاسِنِہِ
فٙجٙوْ ھٙرُ الْحُسْنِ فِیْہِ غٙیْرٙ مُنْقٙسِمِ

ترجمہ: حضور ﷺ اپنی خوبیوں میں ایسے یکتا ہیں کہ اُس معاملے میں اُن کا کوئی شریک ہی نہیں۔ کیونکہ اُن میں جو حُسن کا جوہر ہے وہ قابلِ تقسیم ہی نہیں ہے۔

صحابیِ رسول حضرت سیدُنا حسّان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

وَأَحسَنُ مِنكَ لَم تَرَ قَطُّ عَيني
وَأَجمَلُ مِنكَ لَم تَلِدِ النِساءُ
خُلِقتَ مُبَرَّءً مِن كُلِّ عَيبٍ
كَأَنَّكَ قَد خُلِقتَ كَما تَشاءُ

ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ حسین میری آنکھ نے ہرگز نہی دیکھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ جمیل کسی عورت نے جنا ہی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر عیب سے پاک وصاف پیدا کئے گئے۔ گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح پیدا کئے گئے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چاہا۔

اعلیٰ حضرت عظیم البرکت الشاہ امام احمد رضا خان رحمتہ اللہ المنّان نے بھی اس مضمون کی عکاسی فرماتے ہوئے کتنے نفیس انداز میں فرمایا ہے:

تِرے خُلْق کو حق نے عظیم کہا تِری خِلْق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہو گا شہا ترے خالقِ حُسن و ادا کی قسم

برادرِ اعلیٰ حضرت استاذِ ذمن شہنشاہِ سخن علامہ حسن رضا خان رحمتہ اللہ الحنّان فرماتے ہیں:

تری صورت تری سیرت زمانے سے نرالی ہے
تری ہر ہر ادا پیارے دلیلِ بے مثالی ہے

بہر حال اس پر تمام اُمت کا ایمان ہے کہ تناسُبِ اعضاء اور حُسن وجمال میں حضور ﷺ بے مثل وبے مثال ہیں، چنانچہ حضرات مُحدّثین ومصنفینِ سیرت نے روایاتِ صحیحہ کے ساتھ آپ کے ہر ہر اعضائے شریفہ کے تناسب اور حسن وجمال کو بیان کیا ہے ہم بھی ان شاء اللہ قسط بہ قسط حلیہ مبارکہ کے ذکرِ جمیل سے حُسن وجمال پیدا کرتے رہیں گے۔

جسمِ پاک: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور ﷺ کے جسمِ اطہر کا رنگ *گورا سپید* تھا ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کا مقدس بدن چاندی سے ڈھال کر بنایا گیا ہے۔ (سیرتِ مصطفٰے ص: 389)

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: کہ حضور ﷺ کا جسمِ پاک نہایت نرم ونازُک تھا۔ مٙیں نے دیبا وحریر (ریشمیں کپڑوں) کو بھی آپ کے بدن سے زیادہ نرم ونازُک نہیں دیکھا اور آپ کے جسمِ انور کی خوشبو سے زیادہ اچھی کبھی کوئی خوشبو نہیں سونگھی۔ (شمائلِ ترمزی ص: 63)

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کہ جب حضور ﷺ خوش ہوتے تھے تو آپ کا چہرۀ انور اس طرح چمک اُٹھتا تھا کہ گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے۔ اور ہم لوگ اُسی کیفیّت سے حضور ﷺ کی شادمانی ومسرّت کو پہچان لیتے تھے۔ آپ کے رُخِ انور پر پسینے کے قطرات موتیوں کی طرح ڈھلکتے تھے اور اُس میں مشک وعنبر سے بڑھ کر خوشبو رہتی تھی۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ حضرت بی بی اُمّ سُلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک چمڑے کا بستر حضور ﷺ کے لیے بچھا دیتی تھی اور آپ اُس پر دوپہر کو قٙیلولہ فرماتے تھے۔ تو آپ کے جسم اطہر کے پسینے کو وہ ایک شیشی میں جمع فرما لیتی تھیں۔ پھر اُس کو اپنی خوشبو میں ملا لیا کرتی تھی۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد میرے بدن اور کفن میں وہی خوشبو لگائی جائے جس میں حضور ﷺ کے جسمِ انور کا پسینہ ملا ہوا ہے۔ (سیرتِ مصطفٰے ص: 389)

اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

واللہ جو مل جائے میرے گل کا پسینہ
مانگے نہ کبھی عطر نہ پھر چاہے دلہن پھول

مکھی، مچھر جوؤں سے محفوظ

حضور رحمتِ کونین ﷺ کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ کا بدن تو بدن آپ کے کپڑوں پر کبھی مکھی نہیں بیٹھی، نہ کپڑوں میں کبھی جوئیں پڑیں ، نہ کبھی کھٹمل یا مچھر نے آپ کو کاٹا۔ جسمِ پاک پر مکھی نہ بیٹھتی تھی۔ (الخصائص الکبریٰ ج، 1 ص: 168 سیرت مصطفٰے ص: 399)

آپ نور تھے۔ پھر مکھیوں کی آمد، جوؤں کا پیدا ہونا چونکہ گندگی، بدبو وغیرہ کی وجہ سے ہوا کرتا ہے۔ اور آپ چونکہ ہر قسم کی گندگیوں سے پاک اور آپ کا جسم شریف خوشبو دار تھا۔ اس لیے آپ اِن چیزوں سے محفوظ رہے۔ (سیرتِ مصطفٰے ص: 390)

مُہرِ نبوّت: حضور اقدس ﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان کبوتر کے انڈے کے برابر مُہرِ نبوّت تھی۔ یہ بظاہر سرخی مائل اُبھرا ہوا گوشت تھا۔ چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مٙیں نے حضور ﷺ کے دونوں شانوں کے بیچ میں مُہرِ نبوّت کو دیکھا، جو کبوتر کے انڈے کی مقدار میں سرخ اُبھرا ہوا ایک غدود تھا۔ (شمائلِ ترمزی ص: 92)

عمرو بن اخطب انصاری فرماتے ہیں: کہ مجھے حضور ﷺ نے فرمایا، اے زید کے والد! میرے نزدیک ہو جا اور میری پیٹھ کو مٙل، پس میں حضور ﷺ کی پُشت مبارک کو ملنے لگا پس اچانک میری اُنگلیاں مُہرِ نبوّت پر لگ گئیں، میں نے یعنی (علباء) نے کہا مہر نبوّت کیا ہے ابو زید نے کہا کہ بالوں کا مجموعہ۔ (شمائلِ ترمزی ص: 94)

محققِ علی الاطلاق حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدّث دہلوی مدارج النبوة میں فرماتے ہیں کہ آپ علیہ السّٙلام کی مہرِ نبوّت میں لکھا ہوا تھا۔ اٙللّٰہُ وٙحْدٙہُ لٙآ شٙرِیْکٙ لٙہُ تٙوٙجّٙہُ حٙیْثُ کُنْتٙ فٙاِنّٙکٙ مٙنْصُوْرُ یعنی اللہ ایک ہے۔ اُس کا کوئی شریک نہیں۔ (اے رسول ﷺ ) آپ جہاں بھی رہیں گے ، آپ کی مدد کی جائے گی۔ (مدارج النبوّة ج، 1 ص: 33)

اور ایک روایت میں یہ بھی کہ کٙانٙ نُوْرٙٙا یٙتٙلٙأُ لٙأُ مہرِ نبوّت ایک چمکتا ہوا نور تھا۔ راویوں نے اس کی ظاہری شکل وصورت اور مقدار کو کبوتر کے انڈے سے تشبیہ دی ہے۔ (سیرتِ مصطفٰے ص: 391)

حضرت وہب بن منبہ سے روایت ہے کہ کوئی نبی مبعوث نہ ہوا مگر یہ کہ ان کے داہنے ہاتھ میں کوئی علامتِ نبوّت ہوتی لیکن ہمارے نبی حضور ﷺ کی علامتِ نبوّت ، آپ کے دونوں شانوں کے درمیان تھی۔ (مدارج النبوّة ج، 1 ص: 33)

مِہرِ چَرخِ نبوت پہ روشن درود
گُلِ باغِ رِسالت پہ لاکھوں سلام

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں