دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

امام اعلی حضرت اور فن نعت گوئی

عنوان: امام اعلی حضرت اور فن نعت گوئی
تحریر: عالمہ مدحت فاطمہ ضیائی گھوسی


چودہویں صدی کے آغاز میں ایک ایسی جامع الصفات ہستی دنیا کے سامنے جلوہ گر ہوئی، جنہوں نے اپنے علم، عمل سے نہ صرف برصغیر کو بلکہ پوری دنیا کو دینِ اسلام کی روشنی سے منور کر دیا۔ یہ وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں جنہیں دنیا امامِ اہلِ سنت، مجددِ دین و ملت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانتی ہے۔

جلیل القدر شخصیت ہونے کے ناطے آپ اپنی خدمات جمیلہ اور مساعی جلیلہ کے باعث محتاجِ تعارف نہیں، یوں تو ہر ایک فن میں آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی چاہے وہ علم فقہ ہو یا علم اصول فقہ، علم ارضیات ہو یا علم طبعیات، علم معدنیات ہو یا علم صوتیات، علم ہندسہ ہو یا فلسفہ، علم عروض ہو یا علم نجوم، طب ہو یا منطق، علم توقیت ہو یا تقویم؛ گویا ہر طرح کے علوم و فنون میں آپ کو یدِ طولی حاصل تھا۔

آپ عالم مفتی، مفسر، محدث اور شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑے سائنس دان بھی تھے۔ اگر پچھلی صدی کے علماء فقہاء مفسرین مفکرین کی فہرست دیکھا جاۓ، تو دور دور تک ایسی ہمہ جہت شخصیت نظر نہیں آتی۔ مشرک ماحول کی زہریلی فضا میں توحید کا علم بلند کرنے والی، محبتِ رسولﷺ کی شمع فروزاں کرنے والی، توقیرِ اولیاء کی خوشبو بکھیرنے والی اور خرافات کے انبار سے اسلامی قدروں کے نگینے تلاش کرنے والی ذات کا نام اعلیٰ حضرت ہے۔

بلاشبہ آپ کی علمی، فکری، سمعی اور اعتقادی کارگزاریوں کو دیکھ کر یہ کہنا بجا ہے کہ آپ ایک چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ علمائے اسلام اور اہلِ دانش کے مطابق، علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ کے بعد ایسی جامع شخصیت کا ظہور نہیں ہوا۔ آپ کو ایک سو سے زائد علوم و فنون پر مہارت حاصل تھی، لیکن ہم جیسے کم علم اور نادان لوگ تو آپ کی وسعتِ علمی کا صرف تصور ہی کر سکتے ہیں۔ سوائے آپ کے فتاوی اور نعتیہ کلام کے، میرا آپ کے علوم و فنون سے کوئی براہِ راست واسطہ نہ ہو سکا۔ اور ہوتا بھی کیسے؟ کہاں آپ وقت کے مجدد اور کہاں میں آپ کی ایک ادنیٰ سی کنیز۔

لیکن ایک ایسا فن جس نے میرے دل کو سرشار کر دیا۔ وہ فن جس نے میرے اندر عشقِ رسول ﷺ کی چنگاری کو شعلہ بنا دیا، حتی کہ حضور ﷺ کی محبت سے لیکر مدینہ کی یاد میں آنسو بہانے پر مجبور کر دیا۔ جی ہاں، وہ ہے آپ کی نعتیہ شاعری۔ جس کی زندہ مثال حدائقِ بخشش ہے۔

اس نے میرے دل پر وہ اثر چھوڑا ہے جسے شاید ہی میں الفاظوں میں ڈھال سکوں جتنے بھی اشعار کی تشریح و وضاحت مجھے آج تک معلوم ہوئی پھر چاہے وہ سوشل میڈیا کے ذریعے یا کسی کتاب کے ذریعے یا‌ کبھی کسی کی خطابت سننے سے یا کبھی کلام رضا کی تشریح کا مطالعہ کرنے سے ہوئی بیشک! ہر شعر میں ایک انوکھا انداز، ایک الگ ہی جمال، ایک الگ ہی محبت، الگ رنگ اور کیف و سرور ہے۔

آپ کا عظیم شاہکار ایک نعتیہ کلام اسمیں آپ نے یہ صنعت رکھی کہ جس کو پڑھنے سے ہونٹ آپس میں نہیں ملتے۔ دیکھیں میرے اعلی حضرت کو اس فن میں کس درجہ کا کمال حاصل تھا کہ پوری نعت ہی ایسی لکھ دی جسمیں ایک بھی مرتبہ ہونٹ آپس میں نہیں ملے سبحان اللہ

آخر میں آپ فرماتے ہیں:

جس طرح ہونٹ اس غزل سے دور ہیں
دل سے یونہی دور ہو ظن و ظاں

• ایک اور نعتیہ کلام، جس کی برکت سے آپ کو عالمِ بیداری میں دیدارِ مصطفی ﷺ نصیب ہوا سبحان اللہ! جب آپ دوسری بار حج کے لیے گئے تو مدینہ منورہ میں حاضری ہوئی تو روضۂ اطہر کے سامنے دیر تک صلوٰۃ و سلام پڑھتے رہے۔ پہلی رات دیدار نہ ہو سکا، تو دل کی کیفیت کو اشعار میں یوں ڈھالا مطلع میں فرماتے ہیں:

وہ سُوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں

(اے بہار جھوم جا کہ تجھ پر بہاروں کی بہار آنے والی ہے، وہ دیکھ مدینے کے تاجدار ﷺ سوۓ لالہ زار یعنی جانبِ گلزار تشریف لا رہے ہیں) اور پھر مقطع میں اپنی عاجزی کا نقشہ یوں کھینچا کہ

کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضاؔ
تجھ سے شیدا ہزار پھرتے ہیں

آپ نے دوسرے مصرع میں بطور عاجزی اپنے لیے کتے کا لفظ استعمال کیا ہے مگر ادباً یہاں شیدا لکھا ہے، گویا اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں: (اے احمد رضا! تیری کیا حیثیت؟ تیری بات ہی کیا! تجھ جیسے تو ہزاروں سگانِ مدینہ گلیوں میں یوں پھر رہے ہیں!) یہ نعت لکھنے کے بعد آپ مؤدب انداز میں آستانۂ رسالت ﷺ کے سامنے بیٹھے، دیدارِ مصطفی ﷺ کی تمنا میں سرشار۔ اور پھر وہ لمحہ آیا کہ بیداری کی حالت میں آنکھوں ہی سے دیدارِ مصطفیٰ ﷺ نصیب ہوا۔

آج ہم گناہوں کے دریا میں ڈوبے ہوۓ ہیں ہمارا کہاں یہ نصیب کہ حضور کو خواب میں بھی دیکھ سکیں اگر کسی نے خواب میں حضور ﷺ کا دیدار کرلیا تو سبحان اللہ اس کی قسمت کے کیا کہنے لیکن غور کریں یہ وہ عاشقِ رسول ہیں جنہوں نے جاگتے میں حق کے نور سے اپنی آنکھوں کو منور کیا دیدارِ مصطفی ﷺ کی یہ کیفیت — بیداری میں زیارت، چشمانِ سر سے! — کیا نصیب ہے!

اور اس کی بنیاد؟ وہی بے پناہ عشق، وہی "فنا فی الرسول" کا مقام۔ میرے والد محترم نے ایک بار ایک زبردست نکتہ بیان کیا۔ کہتے ہیں کہ: جب ہم لوگ استاذ کے پاس دیوانِ متنبی پڑھ رہے تھے تو اسمیں متنبی کا ایک شعر استاذ گرامی نے پڑھا جس کا مفہوم یہ ہے کہ شاعر کہتا ہے: "میں اپنے محبوب کے پاس جاتا تھا تو رات ہوتی تھی، اور جب واپس آتا تھا تو دن ہوتا تھا۔" تو اس وقت استاذ محترم نے فرمایا تھا کہ حسن کلام اس شعر کے اندر صنعتِ تضاد ہے (صنعتِ تضاد یعنی جسمیں پہلا مصرعہ دوسرے مصرع کے بالکل مقابل ہو) جیسے اس شعر میں ایک طرف رات دوسری طرف دن ایک طرف جانا دوسری طرف آنا ایسی صنعت ہر شاعر کے بس کی بات نہیں۔

مگر میں کہتی ہوں دیکھیں میرے اعلی حضرت کو امام احمد رضا تو امام الفصاحت والبلاغت ہیں انہوں نے اس فن پر بھی قلم کو حرکت دی اور پوری مہارت کے ساتھ لکھا۔ آپ کا یہ شعر دیکھیں:

حسنِ یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زناں
سر کٹاتے ہیں تیرے نام پہ مردانِ عرب

کیا صنعتِ تضاد ہے: ادھر انگلیاں ہیں، اُدھر سر۔ ادھر مصر کی عورتیں ہیں، اُدھر عرب کے مرد۔ ادھر انگلیاں کٹ رہی ہیں، لیکن ادھر سر کٹاۓ جارہے ہیں ادھر حضرت یوسف کا حسن ہے، اُدھر میرے آقا ﷺ کا صرف نام۔ سبحان اللہ یقیناً! یہ ہے عشقِ رسول ﷺ اور فنِ نعت گوئی کا وہ عروج جس کی کوئی مثال نہیں۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی دنیاوی بادشاہ یا حکمران کی مدح و ستائش نہیں کی۔ آپ کے نزدیک سب سے بڑی عظمت، سب سے بلند رتبہ سید دو عالم ﷺ کی غلامی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے دنیا کے کسی تاجدار کے دربار میں جھکنے کے بجائے درِ رسالت ﷺ پر سر رکھنا پسند فرمایا۔ آپ کی وفاداری، محبت اور عقیدت کا یہ عالم تھا کہ ساری زندگی صرف ایک در کے ہو کر رہے۔ اسی عشق کا اظہار آپ نے ایک شعر میں کچھ یوں کیا:

انہیں جانا، انہیں مانا، نہ رکھا غیر سے کام
للہ الْحَمد، میں دنیا سے مسلمان گیا

یہ ایک شعر ہی نہیں، بلکہ ایک عاشقِ صادق کی زندگی کا خلاصہ ہے، وہ عاشق جو درِ مصطفی ﷺ کو ہی اپنی منزل، اور ان کی رضا کو ہی اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔ ایک بار نوابِ نان پارہ کی تعریف میں کئی شعرا نے قصیدے لکھے اور اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بھی درخواست کی گئی کہ آپ بھی کچھ ارشاد فرمائیں۔ مگر آپ نے کسی دنیاوی بادشاہ کی تعریف کے بجائے نبی پاک ﷺ کی نعت لکھ کر جواب دیا، جس کا پہلا شعر ہے:

وہ کمالِ حسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دُور ہے، یہی شمع ہے کہ دُھواں نہیں

یعنی حضور ﷺ کا جمال اتنا مکمل ہے کہ اس میں کمی تو دور کسی کمی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آپ ﷺ وہ مہکتا پھول ہیں جس میں کانٹے نہیں، ہر شمع دھواں چھوڑتی ہے مگر آپ بزم رسالت کی وہ روشن شمع ہیں جس میں دھواں نہیں۔ پھر آخر میں نواب کی مدح سے انکار کا انداز دیکھیے:

کروں مدح اہلِ دُول رضاؔ، پڑے اس بلا میں مری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا، مرا دین پارۂ ناں نہیں

یعنی: اے رضا! دولت والوں کی تعریف کرکے کسی آزمائش میں کیوں پڑوں؟ میں تو اللہ کے محبوب ﷺ کا فقیر ہوں۔ میرا دین روٹی کا ٹکڑا نہیں، جو دنیا والوں کی خوشامد میں بک جائے! یعنی جس کیلئے میں مالداروں کی خوشامدیں کرتا پھروں

مرزا غالب اور اعلی حضرت؛

دیکھیں! اردو ادب میں مرزا غالب کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ ان کے اندازِ بیان اور زبان دانی نے انہیں اردو شاعری کا ستون بنا دیا۔ شبلی نعمانی نے تو انہیں خاتم‌ الشعرا تک کا درجہ دیا۔

ایک مرتبہ مولانا حسن رضا نے مرزا غالب کی بحرِ رجز میں کہی گئی ایک غزل اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پیش کی۔ آپ نے وہ اشعار سننے کے بعد فرمایا: "حسن میاں! اُسے چھوڑو، یہ پڑھو!" اور اسی بحر میں ایک نعت شریف ارشاد فرمائی۔ غالب نے کہا: میں نے کہا کہ بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں؟

یعنی میں نے اپنے محبوب سے کہا غیروں کے سامنے ناز نخرے نہ دکھایا کر، تیری محفل ناز غیر سے خالی ہونی چاہیے۔ اس ظالم نے میری بات سن کر مجھے ہی ناز دکھانے چھوڑ دیے، مجھے غیروں کی طرح محفل ناز سے اٹھا دیا اور پوچھنے لگا: ایسے خالی ہونی چاہیے؟ اب دیکھیے اعلی حضرت کا شعر:

میں نے کہا کہ جلوہ اصل میں کس طرح گمیں
صبح نے نورِ مہر میں مٹ کے دکھا دیا کہ یوں

آپ کو معلوم ہوگا رات ختم ہوتے ہی صبح نمودار ہو جاتی ہے۔ یہ صبح در حقیقت سورج کا اعلان کرنے آتی ہے اور یہ بتانے آتی ہے کہ: لوگوں! اصل میں نہیں ہوں، میری اصل سورج ہے، میری روشنی اس کی مرہون منت ہے۔ جس طرح ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے اسی طرح جب سورج نکلے گا تو میں اسی میں ضم ہو جاؤں گی ، میرا وجود باقی نہیں رہے گا۔ امام کہتے ہیں:

میرے آقا ساری کائنات کی اصل آپ ہیں، میرا دل مجھ سے پوچھتا ہے: آپ ﷺ کے جلوۂ محبت میں کس طرح گمیں ؟ میں کہتا ہوں: ایسے گم ہو جا جیسے صبح کا نور سورج کی روشنی میں گم ہو جاتا ہے! میں نے کہا کہ جلوہ اصل میں کس طرح؟ گمیں صبح نے نورِ مہر میں مٹ کے دکھا دیا کہ یوں! (تحریراتِ لقمان/ص ۲۹۵)

غور کریں! کہ مرزا غالب کو اردو شعر و شاعری میں کمال حاصل تھا مگر میرے اعلی حضرت کا فن ملاحظہ کریں آپ نے تو اسمیں اپنا عشق رسول بھی ہر ہر لفظ میں شامل کردیا۔ فن شعر و شاعری سب اپنی اپنی جگہ لیکن نعت گوئی کیلئے فن‌ ہونے کے ساتھ ساتھ عشق رسول بھی تو ہونا ضروری ہے، اس کیلئے جگر میں خون ہونا چاہیے رگ رگ میں عشق رسول ہونا چاہیے۔

فن شعری ہے اقبال اپنی جگہ
نعت کہنے کو خونِ جگر چاہیے

اور امام عشق و محبت تو دونوں میں کمال ہیں۔

اے رضاؔ جانِ عَنا دِل ترے نغموں کے نثار
بلبل باغ مدینہ ترا کہنا کیا ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں