عنوان: | اہلیانِ کچھ اعلی حضرت کی تعلیمات سے کیسے آشنا ہوئے؟ |
---|---|
تحریر: | مریدہ مفتی اعظم کَچھ (بنت عثمان ہنگورہ) |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
آج ہندوستان کے سب سے بڑے ضلع یعنی کچھ (kutch) میں شہر شہر گاؤں گاؤں عرسِ اعلی حضرت منایا جاتا ہے۔ ہر محفل میں عشق و محبت عشق و محبت اعلی حضرت اعلی حضرت کا نعرہ لگایا جاتا ہے، نعت کی باری آئے تو کلام اعلی حضرت سے دل جھوم اٹھتے ہیں۔ صرف 25 سفر کے دن نہیں بلکہ ہر ہفتے ہر محفل میں اعلی حضرت کو یاد کیا جاتا ہے، لوگ ان کے دیوانے ہیں یہاں تک کہ وہ نعت خواں جنہیں اعلی حضرت کے کلام کو پڑھنے کی مہارت حاصل ہو انہیں پورے کچھ میں ایک عظیم شخصیت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
لیکن آج سے 60، 70 سال پہلے یہ معمول بالکل نہیں تھا، بلکہ کوئی اعلی حضرت کا نام تک نہ جانتا تھا اگر کوئی جانتا بھی تھا اعلی حضرت کے بارے میں تو صرف یہ کہ کوئی نعت لکھنے والے ہیں جو بریلی میں رہتے ہیں اور عشقِ رسول میں ڈوب کر اپنا قلم چلاتے ہیں، بس اس سے زیادہ نہیں۔ نہ ہی اعلی حضرت کی محبت کسی کے دل میں تھی نہ کوئی احترام اور روحانی تعلق تھا، کیوں کہ:
ہندوستانی تاریخ میں جس طرح گجرات کا بیشتر علاقہ خصوصی طور پر کَچھ معاشی اعتبار سے پسماندہ اور یہاں کی زمینیں بھی بنجر تھی۔ دینی و علمی اعتبار سے بھی اس سے کچھ غیر مشابہ نہ تھا۔ بیشتر لوگ دینی علم سے دور تھے اور جو اہل علم تھے ان کے لئے بھی یہاں کچھ بولنا دشوار تھا کہ لوگوں کا رویہ یہ تھا کہ کوئی ان کی مخالفت کرے تو اس کے لئے زندہ رہنا ہی دشوار کر دیتے تھے۔
یہاں تک کہ ایک مرتبہ کسی وجہ سے شہزادۂ اعلی حضرت حضور مفتی اعظم ہند رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کا گجرات کے ایک علاقے میں آنا ہوا اور جب انہوں نے کچھ کی عوام کو دیکھا تو ندامت سے کہنے لگے کہ ان لوگوں کو سدھارنے کے لئے تو ایک پوری صدی (100 سال) لگ جائے گی۔ اور افسوس کے ساتھ لونٹ گئے۔ اسی بات سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ کچھ کا ماحول کس قدر دین سے دور اور بنجر ہوگا۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ اگر ایسے خراب حالات تھے تو آج تو یہ علاقہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہاں تو جا بجا مدارس و مساجد اور علماء اہلسنت موجود ہیں وہ بھی سب اعلی حضرت کے مسلک اور ان کی تعلیمات کے پیرو۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟ جہاں دین کی بھی معلومات اتنی قلیل وہاں پر مسلک اعلیٰ حضرت کا نعرہ لگانے والے کیسے بن گئے؟
تو اس کا جواب ہے: فقیہ اعظم مفتی کچھ حضور سیدی و مرشدی علامہ سید احمد شاہ بخاری القادری رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ذات اور ان کا مشن ہے۔ پورے کچھ کا ایکایک سنی مسلمان اس بات کو فخر سے تسلیم کرتا ہے کہ آج اگر یہاں اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان کا نام لیا جاتا تو یہ فقط مفتی اعظم کچھ کی تعلیمات کی بدولت، اگر وہ ہمیں مسلک اعلیٰ حضرت کی تعلیم نہ دیتے تو آج اہل کچھ میں کوئی بھی آپ کو نہ پہچانتا۔
ہم اپنی کھال اتار کر اس کے جوتے بھی اگر آپ رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کو پہنائیں تب بھیآپ کے احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتے کیوں کہ آپ رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ ہی وہ ہستی ہیں جنہوں نے ہماری انگلی پکڑ کر مسجد تک پہچایا، دلوں میں حضور اکرم ﷺ کی محبت کا جزبہ، اولیاء کرام کی عقیدت اور رجوع الی اللہ کا طریقہ سیکھایا۔ الغرض ایسا ہے جیسے ہم گمراہ ہو کر جہنم کی طرف جا رہے تھے انہوں نے ہاتھ پکڑ کر ہمیں ہدایت کا راستہ دکھایا اور ہمارا یہ یقین ہے کے قیامت کے دن بھی جب ہمیں جہنم کی طرف گھسیٹا جا رہا ہوگا وہ ہاتھ پکڑ کر اپنے ہمراہ جنت میں لے جائیں گے ان شاءاللہ ۔
کچھ جو کہ ہندوستان کا سب سے بڑا ضلع ہے اس میں گھر گھر پیدلجا کر اپنے اعلیٰ اخلاق سے لوگوں کے دلوں میں تعلیماتِ رضا کی شمع روشن کی۔ آپ نے کچھ میں دینی تعلیم عام کرنے کے لئے جو قربانیاں دی ہیں شاید ہی اب کوئی دے سکتا ہے، آپ کی ذات اہل کچھ کے لئے مجدد کا درجہ رکھتی ہے۔ اگر آج کچھ کی مساجد میں اللہ اکبر اللہ اکبر کی سدا گنجتی ہے تو یہ بھی ان کی محنت کا سلا ہے، اگر آج کچھ کے مدارس میں دین سکھایا جاتا ہے تو یہ بھی ان کااحسان ہے۔ سیکڑوں حرام خور آپ کی مہربانی سے قرب کا درجہ پاگئے۔
ان کے اخلاق میں سنت نبوی نظر آتی،
ان کے چہرے پر مولا علی کا نور نظر آتا،
ان کی قربانیوں میں حسنین کی تصویر نظر آتی،
ان کی گفتار میں غوث اعظم کی جھلک نظر آتی،
ان کی تبلیغ میں معین الدین چشتی کا عکس نظر آتا،
الغرض مفتی اعظم کچھ ہی وہ ذات ہیں جن کے لئے ہم کہہ سکتے آپ ہی وجہ ہیں کہ اہلیان کچھ و گجرات اعلی حضرت کی تعلیمات سے آشنا ہوئے ہیں۔ ان کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے ایک شعر لکھا ہے:
دنیا کے گیتوں میں ہم تو مست تھے لیکن شہا
ہمیں تیرے قلم کا صدقہ دلایا اے امام احمدرضا۔
مفتی کچھ کا رہے گا ہم پر یہ احساں عظیم
مرشد نے تجھ سے ملایا اے امام احمد رضا
رفع الله درجاتهم، وأدام علينا نعمه اللہ تعالٰی ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کا فیض ہم پر ہمیشہ جاری رکھے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ