عنوان: | حسینی کا انتخاب راہِ حق یا باطل (میں حسینی ہوں: قسط: ہشتم) |
---|---|
تحریر: | مریدہ مفتی اعظم کَچھ (بنت عثمان ہنگورہ) |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
دنیا میں ہر انسان کو قدم قدم پر دو راستے ملتے ہیں: ایک راستہ وہ ہوتا ہے جو سچ، انصاف اور اللہ کی رضا کا ہے اور دوسرا وہ جو وقتی فائدے، جھوٹ، دھوکہ اور خودغرضی کا۔ یہی دو راستے راہِ حق اور راہِ باطل کہلاتے ہیں۔ دنیا دو راستوں کا میدان ہے۔
ایک راہِ حق: جس پر چلنا مشکل ہے مگر انجام جنت ہے۔
دوسری راہِ باطل: جو بظاہر آسان لگتی ہے مگر انجام رسوائی اور جہنم ہے۔
ہر انسان کو ہر لمحہ ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔
اور حسینی؟
وہ ہر اس موڑ پر، ہر اس لمحے پر راہِ حق کا انتخاب کرتا ہے۔ چاہے وہ راہ اسے تنہا کر دے، مصیبتوں میں ڈال دے، یا سولی چڑھا دے۔یہی وہ موقعے ہوتے ہیں جہاں ایک حسینی اپنی پہچان دکھاتا ہے۔ کربلا اسی فیصلے کا دوسرا نام ہے۔ یزید نے دنیا دی، اقتدار دیا، عہدے دیے۔ مگر بدلے میں خاموشی مانگی، حق سے پیچھے ہٹنے کی فرمائش کی۔ لیکن حسین رضی اللہ عنہ نے کہا:
مثلی لا یبایع لمثلہ مجھ جیسا اُس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا!
یہ اعلان صرف الفاظ کا نہ تھا، بلکہ راہِ حق کے انتخاب پر جان، خاندان، اصحاب، اور ہر چیز قربان کرنے کا عہد تھا۔ یہ صرف الفاظ نہیں پوری زندگی کا اصل اصول ہیں۔
حق کی علامت کیا؟
اور حق کی سب سے بنیادی علامت ہے: سچ امام حسین نے حق کی خاطر جھوٹ، منافقت، اور دھوکہ ہر چیز کو رد کر دیا۔ انہوں نے باطل کے خلاف سچائی کا علم بلند کیا۔
تو آج ہم…؟
کیا ہم میں حسینی ہوں کہہ کر بھی جھوٹ بولتے ہیں؟
کیا ہم سچ کی قربانی صرف اس لیے دیتے ہیں کہ کہیں رشتہ نہ ٹوٹ جائے، نوکری نہ چلی جائے، یا دنیا ناراض نہ ہو جائے؟
کیا ہماری دوستی، ہمارے کاروبار، ہماری زبان، ہمارے فیصلے حق کے ساتھ ہیں یا باطل کی چمک دمک کے ساتھ؟
کیا ہم انصاف کے بجائے مفاد کو ترجیح دیتے ہیں؟
اگر ایسا ہے، تو ہمیں سوچنا ہو گا۔
کیا ہم میں حسینی ہوں کہنے کے اہل ہیں؟
یاد رکھو!
حسینی وہ ہے جو سچ کو لبیک کہے،
چاہے سچ بولنے سے دنیا چھن جائے،
چاہے تنہائی ملے،
چاہے ہر طرف دشمن ہوں،
لیکن دل مطمئن ہو کہ میں راہِ حق پر ہوں۔
آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟
آج ہم میں سے اکثر لوگ وقتی فائدے، دوسروں کی خوشی، یا دنیا کی تعریف کے لیے سچ چھوڑ دیتے ہیں۔
ہم رشوت کو
ضرورت
کا نام دیتے ہیں۔
غیبت کو
تجزیہ
کہہ کر کرتے ہیں۔
حق چھپاتے ہیں تاکہ اپنا نقصان نہ ہو۔
لیکن سچائی اور انصاف کے لیے کھڑا ہونا،
یہی تو حسینی راستہ ہے۔
اور یاد رکھیۓ
ایسا ہرگز نہیں کہ اگر آپ حق کا ساتھ دیں گے تو اس سے لوگوں کی نظر میں آپ کا مرتبہ کم ہو جائے گا ، سچ بولیں گے تو لوگ نفرت کرنے لگیں گے کیوں کہ اب تو زمانہ ہی جھوٹوں کا ہے، مجھے سخت دل سمجھا جائے گا، اگر ایسا ہوا تو کہ اکیلا حق کی طرف رہ گیا اور سب باطل پر متفق ہو گئے پھر تو میں اکیلا پڑ جاؤں گا اور سب میرے خلاف ہو جائیں گے۔
یہ تمام خیالات صرف اور صرف شیطان کا جال ہیں تاکہ آپ حق سے ہٹ جائیں۔ سنو میرا خالق کیا فرماتا ہے، اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا (بنی اسرائیل: 81)
ترجمہ کنزالایمان: اور فرماؤ کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا بیشک باطل کو مٹنا ہی تھا۔
تفسیر
ارشاد فرمایا بیشک باطل کو مٹنا ہی تھا کیونکہ اگرچہ باطل کو کسی وقت میں قوت وغلبہ حاصل ہو بھی جاتا ہے مگر اس کو پائیداری حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کا انجام بربادی و خواری ہی ہوتاہے۔ (خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۱، ۳ / ۱۸۹)
اسی سے ثابت ہو گیا کہ چاہے وقتی طور پر پوری دنیابھی باطلکے ساتھ کیوں نہ ہو حق ہی قائم رہے گا باطل کا انجام ببادی ہی ہے اور میرے رب کی شان نہیں کہ وہ اپنے وعدے کے مخالفت کرے۔ لہٰذا اگر آپ حق کے ساتھ ہیں تو آپ کی جیت ثابت ہے۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں آپ دائمی جیت کے لئے ٹھوڑی سختی اختیار کرتے ہیں یا عارضی عزت کے لئے دائمی بربادی کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن میں یقین سے کہتی ہوں ایک سچا حسینی کبھی اپنے امام کے راستہ سے نہیں پلٹتا لہٰذا جو جو حسینیت کا دعویٰ کرتے ہیں ان کا مقصدِ حیات یہی ہوگا،
ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ حسینی بننے کا مطلب صرف کوئی نعرہ لگانا نہیں،
بلکہ ہر دن، ہر موقع پر حق کو چننا، سچ بولنا اور باطل سے انکار کرنا ہے،
چاہے دنیا ساتھ دے یا نہ دے۔
کیونکہ
میں صرف حسینی کہلانے کے لیے نہیں، حسینی بننے کے لیے جینا چاہتا ہوں! کیونکہ
میں حسینی ہوں!